[ad_1]
WASHINGTON:
امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن کے امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ان کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسکی دولت میں فوری طور پر حیران کن اضافہ ہوگیا۔
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کی دولت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے فوری بعد تقریباً 8 فیصد 20.9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور مجموعی حجم 285.6 ارب ڈالر ہوگیا۔
فوربز رئیل ٹائم بلینئرز کی فہرست کے مطابق بدھ کو ایلون مسک کی دولت میں ایک دم اضافہ دیکھا گیا اور اس سے عالمی سطح پر مالیاتی مارکیٹوں پر پڑنے والے سیاسی اثرات کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسک کے مالی حجم میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی تمام مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کا رجحان تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی الیکشن؛ ڈونلڈ ٹرمپ نے میدان مار لیا
گوکہ مارکیٹ کے رجحانات بدستور پیچیدہ ہیں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسک کی ٹیسلا اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ کاروبار دوست پالیسیوں کے لیے تاریخی مثبت جواب ہے۔
ٹیسلا کے حصص کی قیمت میں اضافے کو سرمایہ کاروں کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے باعث ایلون مسک اور ان کی کمپنی کے لیے سودمند کے طور پر دیکھا ہے۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی موجودگی میں ٹیسلا کو بڑے منافع کا امکان ہے جبکہ معمولی مسابقی کمپنیوں کومتبادل توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سبسڈیز میں ممکنہ کٹوتیوں کے باعث مشکلات کا خدشہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی چین سے درآمدات پر مجوزہ ٹیرف کی وجہ سے امریکی مارکیٹ میں چینی الیکٹرک گاڑیوں کی ریل پیل کا امکان بھی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیسلا کے حصص کی مالیت میں 14.8 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گاڑیاں بنانے والی دیگر مسابقی کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں کمی آئی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ چینی کمپنی نیو کے حصص میں 5.3 فیصد، ریویان کے حصص میں 8.3اورلیوسڈ گروپ کے حصص میں 5.3 فیصد کمی آئی ہے۔
امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق ٹیسلا امریکی الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں 48.9 فیصد حصے کے ساتھ سرفہرست ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی سے دیگر اربوں ڈالر مالیت کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھی فائدہ ہوا ہے، ایمیزون کے بانی جیف بیزوز اور اوریکل کے بانی لیری ایلیسن دونوں کی دولت میں خاصا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے ٹیکنالوجی اور کاروباری شعبوں پر اثرات کے حوالے سے سوالات بدستور موجود ہیں۔
[ad_2]
Source link