36

کراچی، بلوچستان کے صنعت کاروں سے گاڑیاں روک کر بھتہ طلب کیا جا رہا ہے، تاجر رہنما

[ad_1]


کراچی:

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے عہدیداروں نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی اور بلوچستان کے صنعت کاروں کو بھتے کی پرچیوں کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو روک کر بھی بھتہ طلب کیا جا رہا ہے۔

فیڈریشن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں اور نائب صدر ناصر خان نے کہا کہ کراچی سمیت بلوچستان کے صنعت کاروں کو بھتے کی پرچیوں کے ساتھ ساتھ اب گاڑیوں کو روک کر بھتہ طلب کیا جا رہا ہے حالانکہ امن وامان کی صورت حال پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے لیکن بلوچستان میں کاروبار کی صورت حال کسی بھی صورت بہتر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بارڈر ٹریڈ بری طرح سے متاثر ہے، بلوچستان میں 7 ارب ٹن تانبے کے ذخائر ہیں اوربلوچستان کی معدنیات سے 5.50 ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں لہٰذا پورے بلوچستان کو اسپیشل اکنامک زون قرار دیا جائے۔

ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ ملکی معاشی اعداد وشمار بہترنظر آرہے ہیں، روپے کی قدر مستحکم ہے، مہنگائی کی شرح گھٹ کر 44 ماہ کی کم سطح 7 فیصد تک گر گئی ہے اورتجارتی خسارہ کم ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود 2.50 فیصد کمی سے 15 فیصد کردی گئی ہے لیکن پیٹرولیم ایکٹ 1934 میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ کسی بھی طرح کاروبار کی بہتری کے لیے نہیں ہیں۔

تاجر رہنما نے مطالبہ کیا کہ حکومت کوایکسپورٹ پالیسی دینی ہوگی، مقامی انڈسٹریز کوایکسپورٹ فنانس ایکسین میں شامل کیا جائے، ایکسپورٹرز کو ریگولر ٹیکس رجیم میں لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صنعتیں لگانے کے بہت مواقع ہیں۔

نائب صدر ایف پی سی سی آئی ناصر خان نے کہا کہ بلوچستان کافی عرصے سے محرومی کا شکار ہے، بلوچستان کے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا، بلوچستان میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ 75 برس سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان محروم صوبہ ہے، دہشت گردی کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہیں۔

نائب صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ بلوچستان میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے، بلوچستان کی 71 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بزنس مین ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کرتے ہیں، افغانستان سے آنے والے مال پر بھاری رشوت لی جاتی ہے، اب بلوچستان سے پنجاب جانے والی مال بردار گاڑیوں سے ہر جگہ پیسے لیے جاتے ہیں۔

ناصر خان نے کہا کہ بلوچستان میں انڈسٹری لگانے والوں کو ریلیف دیا جائے، بلوچستان میں انڈسٹری کو فروغ دینا ہے تو وہاں سرمایہ کاروں کو سپورٹ کرنا ہوگا، ٹیکس ریلیف ملے گا تو انڈسٹری بھی بلوچستان میں لگے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پہلے ہی صنعت نہیں ہے، اب تجارت بھی بند ہے لیکن بلوچستان میں کاروبار کے بہت مواقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انشورنس کمپنیوں نے مال کی انشورنس کرنے سے انکار کردیا ہے، تجارت بند ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے سامان کو لوٹا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اینٹی اسمگلنگ بہت اچھا اقدام ہے لیکن کوئی متبادل اقدام کیا جائے۔

نائب صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ کمرشل بینکوں نے بلوچستان کو ریڈ زون قرار دیا ہوا ہے، بلوچستان میں اگر قرض نہیں ملے گا تو انڈسٹری کیسے لگے گی، اس لئے ضروری ہے کہ دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی بلوچستان بینک دیا جائے۔

ناصر خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جہاں سے انڈسٹری کی جگہ ہو اس کو اسپیشل انڈسٹری زون قرار دیا جائے کیونکہ جب وہاں کے لوگوں کے پاس کام نہیں ہوگا تو وہ غلط کام ہی کریں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں