4

الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی تیار، پاکستان میں زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد بھی سامنے آگئی


اسلام آباد:

وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی بنا کر سرکولیٹ کردی گئی ہے تاہم منظوری نہیں ملی ہے جبکہ بریفنگ میں اس وقت پاکستان میں زیراستعمال الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد بھی سامنے آگئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی عون عباس بپی کی زیر صدارت منعقد ہوا جہاں وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے کمیٹی کو سولر پینل پر بریفنگ دی۔

سینیٹ کی صنعت و پیداوار کمیٹی کے اجلاس میں الیکٹرک وہیکل پالیسی زیر بحث آئی جس کے حوالے سے حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کا ڈرافٹ بنا کر سرکولیٹ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کی ابھی تک منظوری نہیں ہوئی، اسلام آباد کے تمام پٹرول پمپس پر چارجنگ اسٹیشنز لگائے جائیں گے، موٹرویز پر چارجنگ اسٹیشنز لگانے کے لیے 40 مقامات کی نشان دہی کردی ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھیرہ انٹر چینج پر چارجنگ اسٹیشنز دونوں سائڈ پر لگا دیے گئے ہیں، ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے 3 ہزار چارجنگ اسٹیشنز لگائے جائیں گے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آئل کمپنیاں جو بھی پٹرول پمپس کھولیں گی وہاں چارجنگ اسٹیشن لگانا لازم ہوگا، پارکنگ پلازوں اور لاٹس میں بھی چارجنگ اسٹیشنز لگائے جائیں گے۔

حکام نے بتایا کہ چارجنگ اسٹیشنز پر بجلی کی قیمتوں کا تعین نیپرا کرے گا، اس وقت ملک میں سالانہ 2.5 ملین الیکٹرک بائیک بن رہی ہیں۔

اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عون عباس بپی نے کہا کہ لوگوں کو الیکٹرک بائیکس کی طرف راغب کرنے کے لیے کوئی مثال ہونی چاہیے، شہباز شریف کو ایک الیکٹرک بائیک دے دیں وہ مثال قائم کریں گے، شہباز شریف الیکٹرک بائیک بھی چلائیں گے اور اووو بھی کریں گے۔

حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان میں 300 تک الیکٹرک وہیکل کے لیے چارجر زون بنانے جا رہے ہیں، نئے فیول پمپس کے لیے الیکٹرک وہیکل کے چارجر زون لازمی قرار دیا جائے گا۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ الیکٹریکل وہیکل کے چارجر زون کے لیے قیمت کا تعین کون کرےگا؟ جس پر بتایا گیا کہ یہ ڈیوائس پر منحصر ہے کہ کمرشل ہے یہ نہیں اور قمیت کا تعین چارجر زون کے مالکان کریں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت جب ریگولیٹ ہوسکتی ہے تو یہ کیوں نہیں، اگر مالکان نے قیمت کا تعین کرنا ہے تو پھر جس کی جو مرضی وہ چارج کریں گا۔

حکام نے بتایا کہ الیکٹریکل وہیکل کے لیے بجلی نیپرا کے ذمے ہے اور قیمت کا تعین بھی نیپرا ہی کریں گا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ نے سوال کیا کہ حکومت کا کوئی پلان ہے کہ مسقبل میں الیکٹرک وہیکل استعمال کریں، جس پر حکام نے بتایا کہ حکومت اپنے اداروں میں ٹو ویل استعمال کررہی ہے۔

کمیٹی کو آگاہ کردیا گیا کہ مالی سال 2021-2022 میں سات ہزار 500, 2022-23 میں 15 ہزار، 2023-24 میں 50 ہزار الیکٹرک بائیکس خریدی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ دو کروڑ 80 لاکھ الیکٹرک موٹر سائیکل اس وقت پاکستان میں استعمال ہورہی ہے، سالانہ 25 لاکھ الیکٹرک موٹر سائیکل کی پاکستان میں مینوفیکچرنگ ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مینوفیکچرنگ کے حوالے سے پالیسی بنا رہے ہیں کہ مینوفیکچرنگ پاکستان میں ہو، جس پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگر کوئی باہر سے امپورٹ کرتا ہے تو اس کو کیا معاونت حاصل ہوگی۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں