8

بنگلادیش کے بانی مجیب الرحمان نہیں جنرل ضیاالرحمان ہیں؛ نصاب تبدیل

بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ آمرانہ طرز حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی عبوری حکومت نے حقائق کو درست کرنے کے لیے ملک کا نصاب تبدیل کیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلادیش کے نئے تعلیمی نصاب میں بابائے قوم مجیب الرحمان کے بجائے جنرل ضیا الرحمان کو قرار دیا گیا ہے۔

نیشنل کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین نے بتایا کہ نئی نصابی کتب میں کہا گیا ہے کہ 1971 میں بنگلادیش کی آزادی کا اعلان جنرل ضیاء الرحمان نے مختلف بنگلا ریڈیو اسٹیشن سے کیا تھا۔

2025 کے تعلیمی سال کی نئی نصابی کتب کے مطابق 26 مارچ 1971 کو جنرل ضیاء الرحمان نے بنگلا دیش کی آزادی کا اعلان کیا اور 27 مارچ کو بنگ بندھو کی جانب سے آزادی کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ اس قبل درسی کتب میں بابائے قوم اور بانیٔ ملک شیخ مجیب الرحمان کو قرار دیا گیا تھا۔

مصنف اور محقق رکھل راہا جو نصاب میں تبدیلی کے عمل میں شامل تھے، نے بتایا کہ نصابی کتب کو مبالغہ آمیز اور مسلط کردہ تاریخ سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ نصابی کتب پر نظرثانی کے دوران پایا کہ یہ حقائق پر مبنی معلومات نہیں تھی کہ شیخ مجیب الرحمان نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے دوران وائرلیس پیغام کے ذریعے بنگلادیش کی آزادی کا پیغام بھیجا تھا۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حسینہ واجد کے دور حکومت میں پہلی سے دسویں جماعت کی نصابی کتب میں ملک کی آزادی کا اعلان کس نے کیا اس معلومات میں ردوبدل کیا گیا تھا۔

آخر معاملہ کیا ہے؟

26 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا تاہم انھوں نے گرفتاری سے قبل بنگلا ریڈیو پر کہا کہ یہ میرا آپ لوگوں کے لیے آخری پیغام ہوسکتا ہے۔ آج بنگلا دیش کی آزادی کا دن ہے۔ آپ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں اپنی آزادی کے لیے لڑیں۔

اس پرجوش تقریر کے آخر میں انھوں نے ’’جے بنگلا کا نعرہ بھی لگایا۔ اگلے ہی روز میجر ضیاء الرحمان نے مشرقی پاکستان میں اپنے سینیئر لیفٹیننٹ کرنل جنجوعہ کو قتل کرکے مختلف ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرلیا۔

جنرل ضیاء الرحمان نے ان ریڈیو اسٹیشن سے بنگلادیش کی آزادی کا اعلان بھی کیا تاہم بنگلادیش بننے کے بعد مجیب الرحمان صدر بن گئے۔

مجیب الرحمان کو 15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت میں اہل خانہ سمیت قتل کردیا گیا۔ بغاوت کرنے والے جنرل مشتاق احمد خود صدر بن گئے اور ضیا الرحمان کو میجر جنرل عہدہ دیدیا۔

بعد ازاں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جو جنرل خالد مشرف نے کی اور ضیا الرحمان کو گرفتار کرکے خود میجر جنرل بن گئے۔

چند ہی ماہ بعد  ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل ابو طاہر کی قیادت میں سوشلسٹ فوجی افسران نے بغاوت کی۔ لیفٹننٹ کرنل راشد نے ضیاء الرحمان کو قید سے چھڑایا اور دوبارہ آرمی چیف بنا دیا۔

تاہم ضیا الرحمان کو خدشہ تھا کہ ابو طاہر کی جانب سے ایک اور فوجی بغاوت کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس پر انھوں نے 21 جولائی 1976 کو ابو طاہر کو قتل کر دیا۔

بعد ازاں 19 نومبر 1976 کو ضیاء الرحمان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔

اس کے بعد بنگلادیش کی سیاست میں سیاست دان مجیب الرحمان کے حامی ان کی بیٹی حسینہ واجد کی قیادت میں اور جنرل ضیا کے نظریات کے حامی ان کی اہلیہ خالدہ ضیا کی قیادت میں جمع ہوگئے۔

حسینہ واجد کے حامی ان کے والد مجیب الرحمان کو قوم اور ملک کا بانی سمجھتے ہیں جب کہ خالدہ ضیا کے حامی ان کے شوہر کو قوم کا نجات دہندہ مانتے ہیں جنھوں نے نہ صرف بنگلادیش آزاد کرایا بلکہ بھارت نواز مجیب الرحمان کی حکومت سے بھی قوم کی جان چھڑائی۔ 

نوّے کی دہائی سے شروع ہونے والی شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے درمیان سیاسی چپقلش کے باعث اگر ایک اقتدار میں ہوتیں تو دوسری جیل میں۔

تاہم حسینہ واجد نے اپنے آمرانہ طرز حکومت کے باعث اپوزیشن کو زیر دست رکھا اور مسلسل 15 سال حکومت کی جس کا خاتمہ گزشتہ برس اگست میں طلبا تحریک کے نتیجے میں ہوا۔

 

 

 





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں