امریکا میں سال نو کا جشن منانے کے لیے جمع ہونے والے سیکڑوں افراد پر تیز رفتار پک اپ چڑھ دوڑی تھی جس میں 15 سے زائد ہلاک اور 40 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا وہاں سال نو کی مناسبت سے ہر سال طرح اس برس بھی کنسرٹ، شراب اور آتش بازی کا اہتمام کیا گیا تھا۔
امریکیوں کی بڑی تعداد جب رنگا رنگ تقریب میں شریک تھے۔ عین اُسی وقت ایک تیز رفتار پک اپ نے 50 سے زائد لوگوں کو کچل دیا۔
پولیس کی جوابی کارروائی میں حملہ آور مارا گیا۔ جس کی عمر 42 سال تھی اور اس کی شناخت سابق امریکی فوجی کی حیثیت سے ہوئی تھی۔
امریکی فوج میں ملازمت کے دوران یہ شخص ایک برس افغانستان میں تعینات رہا اور اسی دوران اسلام کی حقانیت سے روشناس ہوکر قبول کیا تھا۔
عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے اور پھر پرورش پانے والے امریکی فوجی نے طالبان کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں اسلام قبول کرکے نام شمس الدین جبار رکھا۔
شمس الدین کی گاڑی سے داعش کا جھنڈا، اسلحہ اور دھماکا خیز ڈیوائس بھی برآمد ہوئی تھی۔ اس کے لیپ ٹاپ سے ملنے والی ویڈیوز نے تفتیش کو نیا رخ دیا۔
ان ویڈیوز میں شمس الدین جبار نے تسلیم کیا کہ وہ داعش میں شمولیت اختیار کرچکا ہے اور ان کی مدد سے یہ کارروائی کرنے جا رہا ہے۔
امریکی تفتیشی افسران چار دن گزر جانے کے باوجود تاحال یہ سراغ نہ لگا سکے کہ شمس الدین جبار کے ساتھ اور کتنے لوگ اس حملے کے پیچھے تھے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ فوج میں تعیناتی کے دوران شمس الدین جبار کا رویہ بالکل درست اور دوستانہ ہوا کرتا تھا۔
ان کے بقول اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اس کے برتاؤ سے شدت پسندی نہیں جھلکتی تھی تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے رابطہ ختم کردیا تھا۔
دوسری جانب شمس الدین جبار کے بھائی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بھائی نے جو کچھ کیا اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔