13

یکساں مواقع – ایکسپریس اردو

پاکستان میں 1973 کے آئین کے تحت انتخابات کے لیے بالغ رائے دہی کے اصول کو اپنایا گیا ہے، اس لیے تمام شہریوں کو بلا کسی مذہبی، صنفی، لسانی اور نسلی تفریق کے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے جو 18 سال کی عمر پوری کر چکے ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو ووٹرز برائے راست منتخب کرتے ہیں جب کہ سینیٹ کے ارکان کو صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔

آئین کی دفعہ 218 کے تحت قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور دیگر پبلک آفیسرز کے انتخابات منعقد کروانے کے لیے ایک مستقل الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا چیئرمین چیف الیکشن کمشنر کہلاتا ہے، جس کا انتخاب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔ ملک میں شفاف، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ ماحول میں الیکشن منعقد کروانا چیف الیکشن کمشنرکی آئینی ذمے داری ہے ۔

انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ان کی خواہش کے مطابق انتخابی نشانات الاٹ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ اسی طرح انتخابی عذرداری کی سماعت کرنا اور آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلے صادر کرنا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

انتخابی عمل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنا اور اس ضمن میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے آنے والی شکایات کا ازالہ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، اگر الیکشن کمشنر یا ان کے نائبین اپنی آئینی ذمے داریوں و فرائض منصبی کو ادا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ پورا انتخابی عمل مشکوک ہو جاتا ہے بلکہ انتخابات کی شفافیت، غیر جانبداری اور منصفانہ ہونے پر بھی سوالیہ نشانات لگ جاتے ہیں۔

پھر ایسے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے وہ الیکشن کمشنر اور انتخابی عمل میں معاونت کرنے والے دیگر حکومتی اداروں پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کرتی ہیں جس سے ملک میں انتشار اور افراتفری پیدا ہوتی ہے، امن تہ و بالا ہو جاتا ہے اور جمہوریت کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

آپ ملک میں انتخابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپ الیکشن کمیشن کے کردار کا جائزہ لے لیں اور آپ انتخابی سرگرمیوں سے لے کر پولنگ اور پھر نتائج کے اعلانات اور بعدازاں حکومتوں کی تشکیل تک حکومت وقت اور پس پردہ قوتوں کے کردار کا بھی جائزہ لے لیں۔

کہنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی شفافیت نظر نہیں آتی۔ اب تک ملک میں جتنے بھی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں سب کے سب متنازعہ رہے ہیں۔ ہر انتخابات کے بعد شکست خوردہ سیاسی جماعتوں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکارکیا، مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور انتخابات کو جھرلو قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور دیگر حکومتی اداروں کو ہدف تنقید بنایا گیا۔

1971 کے عام انتخابات کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک بڑے بھونچال سے دوچار ہو کر دولخت ہو گیا۔ 1977 کے انتخابات کو حزب اختلاف نے تسلیم نہیں کیا جس کے باعث ایک بڑی احتجاجی تحریک چلی اور نہ صرف بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا بلکہ ملک مارشل لا کی قید میں چلا گیا۔

ملک میں اگلے سال 8 فروری کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ آئینی، جمہوری اور قانونی تقاضوں کے مطابق انتخابی عمل میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔

منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانا موجودہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے۔ لیکن الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی بعض سیاسی جماعتوں کی شکایاتآنا شروع ہو گئی ہیں۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے۔

پی ٹی آئی الیکشن کمیشن تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب چیئرمین تحریک انصاف نے 14 جنوری کو کے پی کے اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل کردیں اور 90 روز میں انتخابات نہ ہوئے۔

معاملہ عدالت عظمیٰ میں گیا جہاں سے الیکشن کمیشن کو 90 روز میں آئین کے تحت انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا، لیکن کے پی کے و پنجاب میں انتخابات نہ ہو سکے۔

دوسرا تنازعہ چند روز پیشتر پیدا ہوا جب الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے انتخابی نشان ’’ بلے‘‘ کو واپس لے لیا مگر بعدازاں عدالتی فیصلے میں بلے کا نشان واپس مل گیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھی بارہا لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہوئے سوالات اٹھا رہے ہیں۔

نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر کسی کو انتخابی عمل سے روکا گیا تو اس کی تحقیقات کرائیں گے۔ کسی کی سیاسی بے دخلی حکومتی پالیسی نہیں ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے یکساں مواقعے نہ دیے گئے تو پھر سوالات اٹھیں گے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں