جاوید اختر کے والد کا نام جاں نثار اختر تھا، وہ شاعروں کے مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جاں نثار اختر کا جنم18 فروری 1914 کوگوالیار میں ہوا۔
ان کے والد کا نام تھا مضطر خیر آبادی جو خود بھی شاعر تھے اور جاں نثار کے پر دادا کا نام تھا فضل حق خیر آبادی، جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں انگریزوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے انھیں کالے پانی کی سزا دی، جہاں وہ قید کے دوران وفات پا گئے۔
جاں نثار اختر نے بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی، انھوں نے ماسٹرز مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیا تھا، ان کے مالی حالات اچھے نہ تھے، شادی صفیہ سے ہو چکی تھی اور دو بچے زندگی میں آچکے تھے، لہٰذا وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر بمبئی چلے گئے۔
صفیہ نے ایک کالج میں پڑھانا شروع کردیا، صفیہ کی بڑی بہن حمیدہ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا، جاں نثار اختر نے مینا کماری کو لے کر ایک فلم بہو بیگم بھی بنائی، بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے، وہ اپنے دور کے مقبول شاعر تھے۔
انھوں نے بہت سی فلموں کے لیے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ خاص کر گرودت کی فلم سی۔آئی۔ڈی کے گیت اور ان کی آخری فلم ’’ رضیہ سلطان‘‘ کے گیت جس کی موسیقی خیام نے دی تھی، اور رضیہ سلطان کا وہ گیت ’’ اے دلِ ناداں آرزو کیا ہے، جستجو کیا ہے‘‘ یہ گیت لتا کو اتنا پسند تھا کہ اسے گانے کے بعد کئی دنوں تک وہ اس کے سحر میں ڈوبی رہیں۔
وہ بمبئی میں رہتے تھے اور صفیہ دو بچوں کے ساتھ بھوپال میں۔ 1949 میں ان کی ملاقات عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ملک راج آنند، سی رام چندر، خیام، اوپی نیر، این دتہ سے ہوئی۔ انھوں نے 151 فلموں میں گیت لکھے جس میں فلم رضیہ سلطان کے گیت اس قدر مقبول ہوئے کہ راجیش کھنہ نے رضیہ سلطان کا میوزک دینے پر موسیقار خیام کو اپنی گاڑی تحفے میں دے دی تھی۔
فلم یاسمین سے جاں نثار اختر کو بہت شہرت ملی، اس فلم کی ہیروئن تھی وجینتی مالا۔ انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی شاعری کے 13 مجموعے ہیں، جاوداں، گھر آنگن، ہندوستان ہمارا ہے، پچھلے پہر، سویرا، کاررواں، بیدار سے انساں، تارِ گریباں، سلاسل، نذر بتاں، سکوت، حرف آشنا اور انداز نظر۔ ان کی شادی صفیہ سراج الحق سے 1943 میں ہوئی، صفیہ کی وفات 1953 میں کینسر کے سبب ہوئی۔
اختر نے صفیہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر لی تاکہ بچوں کی پرورش ہو سکے، لیکن سوتیلی ماں بھی بھلا کبھی پیار سے سوتیلے بچوں کی پرورش کر پائی ہے، لہٰذا جاوید اور سلمان کو ان کے رشتے داروں نے سنبھالا۔ جاں نثار کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے مالک تھے۔
اسی لیے اکثر انڈر گراؤنڈ رہتے تھے اور صفیہ بے چاری بھوپال میں اکیلے دو بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ جاں نثار اختر نے بمبئی کی فلمی دنیا میں بہت نام کمایا، بڑے خوبصورت گیت لکھے اور آخر کار 19 اگست 1976 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
جھیلی ہے سزا خود داری کی پر ہاتھ نہیں پھیلائے ہیں
اوروں کے لیے ہر درد سہا اس پر بھی برے کہلائے ہیں
٭٭٭
خود اپنی نظر میں چور بنے لائے تھے لگن پروانوں کی
معلوم ہوا یہ دنیا ہے عیار سیاست دانوں کی
٭٭٭
یہ زخم جو دل نے کھائے ہیں گہرے ہیں مگر تلواروں سے
معلوم نہ ہو جب اپنی خطا ہم عذر بھی لے کر جائیں کہاں
جاوید اختر ایک معزز اور مشہور گھرانے کے فرد ہیں۔ ان کی سگھڑ دادی بھی شعر کہتی تھیں۔ جاوید کو اپنے والد کی شہرت دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ البتہ ان کے تعلقات اپنے والد سے زیادہ اچھے نہ تھے جس کی وجہ ان کی سوتیلی ماں تھیں۔
بمبئی پہنچ کر جاوید اختر کام کی تلاش میں سرگرداں رہے وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بننا چاہتے تھے۔ وہ مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ ایک دن ان کی ملاقات، سلمان خان کے والد سلیم خان سے ہوئی جو لکھاری تھے، فلم سرحدی لٹیرا کے سیٹ پر یہ ملاقات ہوئی، جلد ہی یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور دونوں سلیم جاوید کے نام سے فلموں کی کہانیاں لکھنے لگے۔ پھر جلد ہی جاوید صاحب کو جے پی سپی کی کمپنی سپی فلم میں انھیں نوکری مل گئی، دونوں نے مل کر فلم ’’ شعلے‘‘ کی کہانی لکھی جو ہٹ ہوگئی اور پانچ سال تک صرف ایک ہی سینما میں چلتی رہی، اس کے بعد جاوید صاحب کی تقدیر بدل گئی۔
سلیم جاوید پر دولت کی دیوی مہربان ہوچکی تھی، ’’شعلے‘‘ کے بعد انداز، دیوار، زنجیر، سیتا اورگیتا، مسٹر انڈیا، کرانتی، ڈان، یادوں کی بارات وغیرہ لکھیں۔ سلیم جاوید کی جوڑی بارہ سال تک ایک ساتھ کام کرتی رہی۔ پھر 1982 میں دونوں الگ ہوگئے۔
اب سلیم اختر گیت کار بھی بن گئے تھے، ان کے گیت فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے، جاوید اختر ایک کشادہ ذہن رکھنے والے انسان تھے، وہ اپنے والد کی طرح خود دار اور اعلیٰ ظرف انسان ہیں، فلم ’’رفیوجی‘‘ میں سونو نگم کا گایا ہوا گیت ان کے خیالات کی نمایندگی کرتا ہے:
پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے
کوئی سرحد نہ انھیں روکے
سرحد انسانوں کے لیے ہے
سوچو تم نے اور میں نے
کیا پایا انساں ہو کے
جاوید اختر کو آٹھ بار فلمی ایوارڈ ملے جو ان کے گیت لکھنے پر تھے۔ امیتابھ بچپن کی ڈوبتی نیا کو سلیم جاوید نے زنجیر لکھ کر ڈوبنے سے بچایا۔ پھر تو امیتابھ نے زیادہ تر انھی فلموں میں کام کیا جن کا اسکرین پلے اور ڈائیلاگ سلیم جاوید لکھیں گے۔ زنجیر کی کامیابی کے بعد امیتابھ نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
جاوید صاحب کا نکاح اسکرپٹ رائٹر اور چائلڈ اسٹار ہنی ایرانی سے 6 مارچ 1976 کو ہوا، جن سے ان کے دو بچے ہوئے۔
جاوید صاحب کی نزدیکیاں شبانہ اعظمی سے بڑھنے لگیں، کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی دونوں اس رشتے کے خلاف تھے، لیکن 1978 میں ہنی ایرانی اور جاوید صاحب کی طلاق ہوگئی، ہنی ایرانی نے ساڑھیوں پر کام کرنا شروع کیا اور فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھنے لگیں، ہنی ایرانی نے ڈھائی سال کی عمر میں بطور چائلڈ اسٹار فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا۔
جاوید اختر کے سگے ماموں تھے اسرار الحق مجاز، جو اپنے بھانجوں کو بہت چاہتے تھے، مجاز ایک خوبصورت اور مقبول شاعر تھے، وہ بہت حسین اور وجیہہ تھے، لڑکیاں ان کی تصویریں کتابوں میں رکھتی تھیں، ان کی نظم ’’آوارہ‘‘ اپنے زمانے کی مشہور نظم ہے، ملاحظہ کیجیے:
ایک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی، جیسے بیوہ کا شباب
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
مجاز کا انتقال صرف بیالیس سال کی عمر میں ہو گیا تھا، وہ اپنی بہن صفیہ سے بہت پیار کرتے تھے، صفیہ بھی ان سے بہت محبت کرتی تھیں، صفیہ کی موت کے بعد انھوں نے اپنے دونوں بھانجوں کا بہت خیال رکھا۔ جاوید اختر کا زیادہ تر وقت اپنے ماموں کے ساتھ گزرا۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا خاندان برصغیر کا نامور خاندان ہے، جس میں شاعر ادیب اور عالم سبھی شامل تھے۔