14

عام انتخابات کو متنازعہ بنانے کا کھیل

کسی بھی جمہوری نظام میں انتخابات کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور بڑی اہمیت جو انتخابات سے جڑی ہوتی ہے، وہ انتخابی عمل کی شفافیت ہے اور نتائج کو تسلیم کرنا ہے ۔

ماضی قریب میں جو الیکشن ہوئے، ان کی شفافیت پر سوال اٹھے، جو پارٹی جیتی، اسے انتخابی عمل شفاف نظر آیا ، جو جماعت یا جماعتیں ہار گئیں، انھیں الیکشن دھاندلی زدہ نظر آئے۔ اگر انتخابات کا عمل شفافیت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو تو اس سے جمہوریت اور منتخب حکومت کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔

ہماری مجموعی انتخابی تاریخ میں انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی منظم مہم چلائی جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت اور انتخابات کا نظام مربوط بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکا اور ہم اب تک انتخابات کے تناظر میں شفافیت کے بحران سے گزررہے ہیں ۔

8 فروری 2024کو ہونے والے عام انتخابات کو بھی متنازعہ بنانے کی مہم چل رہی ہے اور یہ مہم کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتی ہے ۔

پولنگ ڈے میں کیا کچھ ہونا ہے، اس سے قطع نظر ا انتخابات کی صحت کو کافی حد تک خراب کرنے کی مہم مسلسل جاری ہے ۔ میرے خیال میں چھ ایسے معاملات ہیں جن پر غور ہونا چاہیے، ان سے انتخابات میں شفافیت کے نظام کو سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس طرز کے انتخابات کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں ۔

اول، 9مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی عملی سیاست مفلوج ہوگئی ہے ۔ ان کے بڑے اور چھوٹے راہنما اور انتخابی امیدوار یا تو گرفتار ہیں یا روپوش ہیں اور باقی لیڈر پارٹی چھوڑ گئے ہیں یا انھوں نے الگ سیاسی جماعتیں بنا لی ہیں۔

پی ٹی آئی کے امیدواروں کی بھاری تعداد نے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات جمع کرادیے ہیں اور وہ منظور بھی ہوگئے ہیں، اس کے باوجود پی ٹٰی آئی کے حامی حلقے کہہ رہے ہیں کہ جہاں وہ سیاسی سرگرمیاں کرتے ہیں تو ان کو قانون کی گرفت میں لایا جاتا ہے ۔

دوئم، کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنا چاہتے ہیں اور پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے سے گریز کریں ۔

سوئم، پنجاب میں جہانگیر ترین کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی اور کے پی کے میں پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ ان جماعتو ں کی تشکیل کے پس پردہ سیاسی محرکات ہیں اور یہ جماعتیں پی ٹی آئی کی مخالفت کریں گی۔

چہارم، نواز شریف اور ان کی جماعت کو جس انداز سے پروٹوکول مل رہاہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس بار انتخابات میں سیاسی ’’لاڈلا‘‘ وہ اور ان کی جماعت ہے۔

پنجم، نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ،صوبائی گورنرز اور کابینہ سمیت الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے نشانے پر ہیں، پی ٹی آئی مسلسل یہ بیانیہ بنا رہی ہے کہ یہ سب ادارے انتخابی عمل میں ایک فریق کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی نگرانی میں انتخابات شفاف نہیں ہوسکتے ۔

ششم، جس انداز سے پی ٹی آئی کے داخلی انتخابات کو چیلنج کیا گیا اور پھر پی ٹی آئی کو بلے کا نشانے واپس کرنے کا ریلیف دیا گیا، اس سے بھی ہمیں الیکشن کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔

ماضی میں بھی پاپولر جماعتوں کا انتخابی راستہ روکا گیا ہے اور یہ روایت اب بھی جاری ہے ۔انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں جس انداز سے پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں سے کاغذات چھیننے کے واقعات ہوئے، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو اپنے کاغذات جمع کرانے میں ہی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ جو پی ٹی آئی کے راہنما جیلوں میں قید ہیں یا مفرور ہیں، ان کے کاغذات تو جمع کر لیے گئے ہیں لیکن کیا ان کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاسکے گی، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے ۔انتخابی شیڈول کے آنے کے بعد ابھی تک پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ یہ اور زیادہ بڑھ رہی ہیں ۔

عام انتخابات کے بعد جو نئی منتخب حکومت قائم ہو گی، اس کی مخالفت شدت سے کی جائے گی ، ان انتخابات کی ساکھ پر پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے حامی پہلے سے زیادہ شدت کے انداز میں سوالات اٹھائیں گے اور فیصلہ کن قوتوں سے بار بار کہا جائے گا کہ ان انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں ۔

یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اول تو پی ٹی آئی اور ان کے حامی تسلیم نہیں کریں گے اور اگر وہ چلی بھی تو اس کی مدت زیادہ نہیںہوگی۔ ملک میں ٹکراؤ یا محاذ آرائی یا شدت پسندی سمیت ایک دوسرے کی عدم قبولیت کے مسائل بدستور رہیں گے، یوں یہ صورتحال ہمیں اور زیادہ سیاسی اور معاشی بحران کی طرف دھکیلے گی ۔

ایسے لگتا ہے کہ انتخابات کے بارے میں ابہام پیدا کرنا اور حالات میں غیر یقینی کی صورتحال کو قائم کرنا کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔

اس کا مقصد بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اگر انتخابات کی طرف جانا ہے تو اس ماحول میں پھیکا پن بھی ہو اور انتخابی مہم میں کوئی پرجوشیت بھی نہ ہو اور نہ ہی ووٹرز بڑی تعداد میں انتخابی عمل کا حصہ بن سکیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انتخابات کی شفافیت کو قائم کرنا اور انتخابی نظام کی ساکھ کو بحال رکھنا ہمارے ریاستی و حکومتی اداروں کے لیے مشکل ہورہا ہے۔

اس وقت سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کا کھیل جاری ہے اور اس کا مقصد من پسند نتائج کا حصول اور حکومت کی تشکیل ہے ۔9مئی کے واقعات میں جو لوگ بھی ملوث تھے، ان کی قانونی گرفت ضرور ہونی چاہیے اور انھیں جرم کی سنگینی کے مطابق قانون میں جو سزا مقرر ہے، وہ دی جانی چاہیے لیکن پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر انتخابات لڑنے والوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی درست نہیں اور اس عمل کی بنیاد پر نئے مسائل پیدا ہوں گے۔

بدقسمتی سے ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور وہی کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جوکچھ ہم عملی طور پر ماضی میں کرتے رہے ہیں، یہ ہی بڑا المیہ ہے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں