[ad_1]
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور ایک مرتبہ پھر امریکا کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ان کی کامیابی نے امریکی سیاست میں ایک نیا موڑ لیا ہے اور عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کا اثر محسوس ہونے کی توقع ہے۔
ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں آسکتی ہیں، اور ان کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کے اثرات دنیا بھر میں محسوس ہوں گے۔ پوری دنیا کے اندازے ٹرمپ نے غلط ثابت کردیے لیکن کمال حیرت یہ ہے کہ کملا ہیرس، جو بائیڈن کے درمیان میں راستہ چھوڑ کر جانے کے بعد سے شاندار طریقے سے کمپین کرتی نظر آئیں اور کارکردگی بھی اعلیٰ دکھائی۔
ٹرمپ کی صدارت کا پہلا دور ان کی ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کی پالیسیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت انہوں نے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر امریکا کے مفادات کو ترجیح دی۔ ٹرمپ نے امیگریشن، تجارتی معاہدوں، اور امریکی صنعتوں کی حمایت کے حوالے سے اپنے سخت فیصلے کیے تھے اور ان کا یہ رویہ اب بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ان کی کامیابی کے بعد بھی امریکا کی امیگریشن پالیسی میں مزید سختی متوقع ہے، خاص طور پر میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے حوالے سے ان کے سابقہ وعدوں کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔ جیسا ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ رہا ہے کہ وہ ایک جارح مزاج صدر کے طور پر میکسیکو دیوار ہو یا افغانستان پالیسی، پاکستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا شمالی کوریا پہ قدغن لگانا، ایران کے ساتھ معاملات ہوں یا مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین صورتحال، ہر لحاظ سے ان کا جارحانہ رویہ جہاں ان کےلیے فائدہ مند ہوسکتا ہے وہاں ہی ان کا رویہ عالمی پالیسی سازی میں ان کےلیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کا محور ہمیشہ امریکا کی صنعتی ترقی اور تجارتی مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ ان کے دور صدارت میں، انہوں نے ٹیکس میں کمی کی اور کارپوریٹ ٹیکس میں تبدیلی کی، جس کا مقصد امریکا کی داخلی صنعتوں کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت دینے کے قابل بنانا تھا۔ ان کی پالیسیوں نے امریکی معیشت کو مختصر مدت میں فائدہ پہنچایا لیکن یہ طویل مدتی حکمت عملی نہیں تھی۔ ٹرمپ کی دوبارہ صدارت میں، امریکا کی معیشت میں مزید اضافہ کرنے کےلیے وہ اسی طرح کے اقدامات کرسکتے ہیں، اور ان کا زور امریکی صنعتوں کو عالمی سطح پر بہتر بنانے اور چین جیسے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں تبدیلی لانے پر ہوسکتا ہے۔ اور تجارتی تعلقات میں بھی یقینی طور پر ان کی شخصیت کا پہلو نمایاں رہے گا۔ امریکی عوام بے وقوف نہیں کہ انہوں نے بلا سوچے سمجھے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدرات کی کرسی تھما دی۔ بلکہ اب شاید امریکی عوام یہ جان چکے ہیں کہ پوری دنیا کے بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے امریکی مفادات اہم ہیں۔
خارجہ پالیسی میں، ٹرمپ کا انداز روایتی سفارتکاری سے بالکل مختلف تھا۔ ان کی کامیابی کے بعد، ممکنہ طور پر وہ امریکا کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید چیلنج کریں گے اور ان سے امریکی دفاعی اخراجات میں اضافے کی مانگ کریں گے، جیسا کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں کیا تھا۔ ٹرمپ نے اکثر کہا تھا کہ امریکا کے اتحادی ممالک کو اپنی دفاعی ذمے داریوں میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ امریکا پر انحصار کم ہو سکے۔ ان کی دوبارہ صدارت میں یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد نیٹو سے جارحانہ انداز میں مطالبات ہونا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ خارجہ محاذ پر یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ سیکریٹری خارجہ کےلیے ان کا انتخاب کون ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایران، شمالی کوریا، پاکستان، افغانستان، چین، روس اور یورپ کے معاملات میں ان کی خارجہ پالیسی کا یقینی طور پر امتحان ہوگا۔
پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ٹرمپ کی پچھلی صدارت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آیا تھا۔ وہ ایک طرف پاکستان کی افغانستان میں امن عمل میں معاونت کو سراہتے تھے تو دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امریکی امداد میں کٹوتی کرچکے تھے۔ ان کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سختی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ امریکی پالیسی میں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر، چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان سے مزید تعاون کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ پاکستان کو چین کے خلاف کسی ممکنہ اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کو محتاط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یقینی طور پر مبارکباد دینے میں تو پہل کردی ہے۔ کاش ٹرمپ بھی اسی طرح کا ردعمل پاکستان کے حوالے سے تعلقات میں مثبت انداز میں دیں۔
ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایران کے حوالے سے ان کی سخت گیر پالیسی جاری رہ سکتی ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی اور اقتصادی پابندیاں اس وقت مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ان کی دوبارہ صدارت میں ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، جس سے مشرق وسطیٰ میں مزید تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں، پاکستان کو ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ غزہ کے انسانی بحران میں بھی ٹرمپ کی پالیسی کا امتحان ہے۔ کیوں کہ اس وقت ایک انسانی المیہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا منتظر ہے کہ وہ اپنے لے پالک کو قابو کرنے کی کوئی سبیل کرتے ہیں یا ہر طرح کے غیر انسانی فعل میں اس کے ساتھ اب بھی کھڑے رہتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے دور میں داخلی سطح پر ’’قانون اور نظم‘‘ کے نفاذ پر زور دیا تھا، اور ان کے دوبارہ صدر بننے کی صورت میں، امریکی شہروں میں جرائم کی شرح اور تشدد کے واقعات کو روکنے کےلیے مزید سخت اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ پولیس کو مزید اختیارات دینے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رہنے کا امکان ہے۔ ان کے فیصلوں کا مقصد امریکی معاشرتی سطح پر امن و امان کو برقرار رکھنا ہے، جس کےلیے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی طاقت کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے جارحانہ رویے کا عکس پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طرز عمل میں نظر آسکتا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات میں مزید کشیدگی متوقع ہے۔ ٹرمپ کی سابقہ صدارت میں چین کے ساتھ تجارتی تنازعات نمایاں تھے، اور ان کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد بھی چین کے ساتھ تعلقات میں سخت پالیسیوں کی توقع ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت میں اپنی پوزیشن کو متوازن رکھنا ہوگا۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کا عالمی سطح پر بھی اثر پڑے گا، کیونکہ وہ بین الاقوامی معاہدوں اور تنظیموں میں امریکا کی شمولیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی پالیسیوں کے تحت امریکا عالمی سطح پر مزید تنہائی اختیار کرسکتا ہے، جیسا کہ اس نے پیرس معاہدہ اور ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کے دوران کیا تھا۔ اس صورت میں، امریکا کے عالمی تعلقات میں ایک نیا رخ آسکتا ہے اور اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی پڑے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی سیاسی فضا مزید متنازع ہوسکتی ہے۔ ان کے فیصلے اور بیانات امریکی عوام کے درمیان اختلافات کو جنم دے سکتے ہیں، جیسا کہ پہلے ان کی صدارت میں ہوا تھا۔ ان کی سخت پالیسیوں اور بیان بازی کی وجہ سے امریکی معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی نے امریکی سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کردیا ہے۔ ان کی قیادت میں امریکا اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرے گا، لیکن عالمی سطح پر ان کی پالیسیوں میں مزید سختی آسکتی ہے۔ ان کی پالیسیوں کا اثر عالمی تعلقات پر پڑے گا اور امریکا کے اندرونی مسائل، جیسے کہ نسلی اور معاشرتی تناؤ، مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ ان کی قیادت امریکا کے مستقبل کےلیے ایک دلچسپ اور متنازع باب کھول سکتی ہے، جس کے اثرات آنے والی دہائیوں تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link