36

معاشرتی توہمات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

[ad_1]

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

رب واحد کی ذات پر مکمل بھروسہ کہ میرے ہر نفع اور نقصان کا مالک صرف وہی ذات ہے، اس کے بغیر نہ تو کوئی مجھے نفع پہنچا سکے گا نہ نقصان۔ یہ ہے وہ ’’توکل علی اللہ‘‘ جو کہ آپ کے مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن آج ہماری ’’بے توکلی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اس ذات واحد کو چھوڑ کر جس کے قبضہ قدرت میں سب اختیارات ہیں، ہم نے اپنی ذات تک ملنے والے ہر فائدے اور نقصان کے ذمے دار ان چیزوں کو مان لیا ہے جن کا ان سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔

یہ ہے ’’توہم پرستی‘‘ جو کہ ’’توکل‘‘ کی ضد ہے۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سوائے اللہ کے کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خالق نہیں ہوسکتے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تجھے جو بھلائی (یا فائدہ) پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور تجھے جو برائی (یا نقصان) پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے (یعنی: تیرے ہی شامتِ اعمال کے سبب) ہے۔‘‘ (النساء)

توہم پرستی کے نتیجے سے پیدا ہونے والے منفی خیالات ہی ہیں جس کی بنا پر اس میں مبتلا افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کچھ چیزوں، رسومات یا علامات کو مبارک قرار دیتے ہیں اور کچھ چیزوں کو منحوس اور نقصان دہ ٹھہراتے ہیں۔ یہی چیزیں انہیں بہت جلد مایوس بنادیتی ہیں۔ اسلام میں توہم پرستی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، لیکن اس کے باوجود مسلمان ہی اس مرض کا سب سے بڑا شکار نظر آتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدشگونی (اللہ کے علاوہ کسی چیز کو نفع اور نقصان میں مؤثر بالذات سمجھنا) شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہوجاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کردیتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)۔

توہم پرستی ہی بدشگونی یا بدفالی ہے، یعنی انسان کسی چیز کے بارے میں بدگمانی اختیار کرے اور اس سے بدفالی کا تصور لے 
مسلمانوں میں توہم پرستی کی سب سے بڑی وجہ کم علمی اور دینی اَحکام سے ناواقفیت ہے۔ قبل از اسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار ہوتے تھے۔ عرب معاشرے کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔ گھروں میں دروازے کے بجائے پچھلی دیوار توڑ کر داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے تھے۔ لوگ معمولی باتوں سے بدشگونی لیا کرتے تھے، اگر انہیں کہیں جانا ہوتا تو پرندے کو اُڑاتے، اگر وہ دائیں جانب کو اُڑتا ہوا جاتا تو اچھا سمجھتے اور اگر وہ بائیں رخ پر اُڑتا تو اپنے سفر کرنے کو نامناسب تصور کرکے اُس سفر سے گریز کرتے۔ اسی طرح تیروں سے فال نکالتے اور خیر و شر کے فیصلے کرتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لختِ جگرحضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے آپؓ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔

آج ہم میں سے اکثریت نے اپنی خوش نصیبی کو مختلف قسم کے پتھروں (زمرد، فیروزہ وغیرہ) اور ستاروں اور سیاروں سے جوڑ لیا ہے۔ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی ملازمت، شادی بیاہ، سفر و حاجات، الغرض زندگی کے ہر میدان میں ہم نے اپنے آپ کو بے وقعت چیزوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ ہماری بے توکلی یا توہم پرستی کا یہ عالم ہے کہ حج و عمرہ سے واپسی پر ہم طرح طرح کے پتھر لاتے ہیں جن کے بارے میں ہمارا گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ ہمارے لیے خوش نصیبی کی علامات ہیں۔ حالانکہ وہاں سے عقیدہ کی مضبوطی اور وہ توکل درکار تھا جو دین کی حفاظت کرتا۔ اور یہی اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ہمیں آج تک ہندوؤں کی ان رسومات کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے جو کہ ساری کی ساری اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ان رویوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ سب کو بیان کرنا مشکل ہے۔

اسلام میں صفائی نصف ایمان ہے لیکن صفائی کے خلاف اس کے اوقات کے سلسلہ میں کئی توہمات ملیں گے۔ کچھ دنوں کو، کچھ مہینوں کو منحوس قرار دے دیا گیا ہے، پھر ان مہینوں کی نحوست ختم کرنے کےلیے نذر و نیاز کا سلسلہ بھی جاری کردیا گیا ہے، خاص کر ’’صفر‘‘ کے مہینے کو، حالانکہ اس کے خلاف صریح احادیث موجود ہیں۔ ماہِ صفر میں کوئی منحوس بات نہیں ہے (سنن ابی داؤد، ح۳۹۱۶)۔

کچھ جانوروں اور پرندوں کو بھی اسی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ بیٹی رحمت ہے جبکہ ہم نے اسے اپنے لیے زحمت قرار دیا ہے، بیوہ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید آئی ہے جبکہ توہم پرستی میں اسے منحوس قرار دے دیا گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اور یہ اسی توہم پرستی کا نتیجہ ہے کہ آج کے مسلمان بھی ان خرابیوں میں ملوث ہوگئے ہیں جن میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ شگون، فال گیری، جادو اور ٹونے ٹوٹکے اس حد تک ہمارے معاشرے میں رواج پا چکے ہیں کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اسلامی نہیں جہالت کے دور کا معاشرہ ہے۔ یہ سب ہمارے ایمان کی کمزوری اور باطل عقائد کی ترجمانی ہے، حالانکہ قرآن کریم کی اور احادیث مبارکہ کی واضح تعلیمات ہیں کہ ’’نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے، اس کا تعلق نہ کسی موسم سے ہے نہ کسی اور چیز سے اور نہ ہی کسی کو اختیار ہے سوائے اللہ کے۔ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کےلیے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“ (ترمذی)

جتنی ہماری توہمات کی فہرست طویل ہے اس سے کئی گنا قرآنی آیات و احادیث موجود ہیں جن میں اس کی مذمت بار بار آئی ہے۔ حقیقت میں یہ ایک شرک خفی ہے جس کا ہم اندازہ ہی نہیں کرپا رہے۔ مراد کہ اللہ کی ذات کے ساتھ ہم اس کی مخلوق (جمادات، حیوانات و نباتات) کو اس کی صفات و اختیارات میں شامل کررہے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے ”مجبور و بے بس شخص کی دعا کو قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے؟ (النمل)

توہم پرستی کی شکل میں ہم سے سرزد ہونے والا شرک یہ ایسا ظلم عظیم ہے جس کی معافی نہیں ہے۔ انسان ہونے کے ناتے رب العزت نے ہمیں اپنی مخلوقات میں وہ وقار اور مقام بخشا ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں، لیکن ہم نے توہم پرستی کی آڑ میں اپنی ذلت کا سامان خود ہی اکٹھا کرلیا ہے۔ اس ذات باری کے خوف کو دل سے نکال کر ہر چیز کا خوف اور تسلط دل میں قائم کرلیا ہے جو سراسر شرف انسانیت کے منافی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹا جائے اور صرف اسی ذات واحد کے ساتھ تمام امیدیں قائم رکھیں جس کے بارے میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ کیونکہ توہمات کے جال میں پھنس جانے والے کو کبھی منزل ہاتھ نہیں آتی اور اس سے بڑا نقصان اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عاقبت دونوں کو برباد کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان زمانے کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتا ہے حالانکہ زمانہ اور شب و روز کی تمام گردشیں میرے اختیار میں ہیں، میں جیسا چاہتا ہوں ویسا ہی کرتا ہوں (صحیح بخاری۔

لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ زمانہ اور اپنے گرد و پیش کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے رب سے تعلق کو استوار کرے اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح کرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں