15

بلوچستان کا مسئلہ – ایکسپریس اردو

لاقانونیت، ماورائے عدالت قتل، خواتین اور بچوں پر تشدد اور عورتوں اور بچوں کی غیر قانونی حراست کے بڑھتے ہوئے واقعات امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی اس خراب صورتحال کی بناء پر ایک طرف عوام میں بے چینی بڑھتی ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص متاثر ہوتا ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقہ مکران کے شہر تربت میں تین افراد بالاچ مولا بخش اور تین دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا، ان افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

بالاچ بلوچ کے لواحقین نے اپنے بیٹے کی لاش دفنانے کے بجائے تربت کے شہید فدا چوک پر رکھ کر دھرنا دے دیا، 23 نومبر کو علاقے کے دیگر لوگ دھرنا میں شامل ہونے لگے۔ اس دھرنا کے شرکاء کا مطالبہ تھا کہ بالاچ بلوچ اور دیگر دو افراد کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں مگر انتظامیہ نے اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

اس دھرنے میں خواتین اور بچوں کی بھاری تعداد شریک تھی مگر ضلعی اور صوبائی انتظامیہ نے اس صورتحال کا عرق ریزی سے تجزیہ نہیں کیا، یوں ابتدائی مرحلے میں انتظامی افسروں نے نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیارکی۔ دھرنے کے شرکاء نے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی نمازِ جنازہ ادا کرنے اور تدفین کا فیصلہ کیا ۔

معروف صحافی عزیز سنگھور نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ان نوجوانوں کی نمازِ جنازہ میں تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگوں نے شرکت کی، لاشوں کی تدفین کے بعد دھرنا پھر شروع ہوا۔ تربت کی انتظامیہ نے بعض اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان کیا مگر پھر اس فیصلہ کو کوئٹہ کی حکومت نے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

اب یہ دھرنا لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے ایک سیما بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ وغیرہ نے لانگ مارچ کی کمانڈ سنبھالی، یوں یہ لانگ مارچ کئی دنوں کے بعد پنجگور پہنچ گیا۔ علاقے کے لوگوں نے ان پیدل چلنے والوں کو گاڑیاں مہیا کیں، یوں یہ افراد اب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔

یہ مارچ جب تربت سے شروع ہوا تھا تو سیکڑوں افراد اس میں شامل تھے مگر پھر یہ تعداد ہزاروں میں تبدیل ہوئی، یہ مارچ نال پہنچا جہاں سے اس نے کوئٹہ کا رخ کیا۔ راستے میں پولیس والوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں، مقدمات درج کیے گئے مگر مارچ جاری رہا، جب مارچ کوئٹہ کی حدود میں داخل ہوا تو پولیس نے سریاب روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کردیں، مارچ کے شرکاء میں بوڑھے، جوان، خواتین اور بچے شامل تھے۔

ان میں اکثریت لاپتہ افراد کے قریبی رشتے داروں کی تھی۔ رات کو شدید سردی میں سریاب روڈ پر یہ مارچ رک گیا۔ کوئٹہ میں ایک بڑا جلسہ ہوا۔ وکلاء کے رہنما علی احمد کرد سمیت کئی رہنماؤں نے خطاب کیا مگر صوبائی حکومت نے بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی مثبت بات چیت کی کوشش نہیں کی۔ اب مارچ والے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔

لانگ مارچ پنجاب کے سرحدی شہر ڈیرہ غازی خان پہنچا۔ اس علاقے سے بھی ہزاروں لوگ مارچ کی حمایت میں متحرک ہوئے۔ پھر مارچ والے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گئے۔ ڈیرہ غازی خان میں پی ٹی ایم کے رہنما لانگ مارچ کے شرکاء کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔

لانگ مارچ کی قیادت نے ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد جانے کا عہد کیا۔ جب یہ لوگ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے، یہ لوگ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دینا چاہتے تھے مگر پولیس نے رات کو شرکاء کے خلاف ایکشن کیا، کئی خواتین اور مردوں کو گرفتار کیا گیا، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کو طلب کیا، عدالت کو آئی جی اسلام آبادنے بتایا کہ کسی خاتون کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ ادھر گرفتار خواتین کو زبردستی بسوں میں بٹھا کر بھیجنے کی کوشش کی گئی مگر انتظامیہ کی یہ خواہش پوری نا ہوسکی۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ جو خواتین کے حالات دیکھنے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے تھے وہ بسوں کے سامنے کرسی بچھا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران ان بس ڈرائیوروں نے خواتین کو زبردستی لے جانے سے انکارکیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں جرائم بڑھ گئے ہیں، ہمارے اسٹاف ممبر سے موبائل چھینے جا رہے ہیں مگر آپ ان بچیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے گورنر ولی اﷲ کاکڑ اسلام آباد آئے اور صدر عارف علوی سے ملاقات کی۔

صدر عارف علوی نے نگراں وزیر اعظم کو ٹیلی فون کیا جس پر ان خواتین کو رہا کر دیا گیا اور اب یہ خواتین دوبارہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں جب کہ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ 200 کے قریب نوجوان لاپتہ ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 100 کے قریب مردوں کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں۔ اس لانگ مارچ میں پسنی کا ایک شخص ناکو ناصر بھی شامل ہے جس کا بیٹا دادو ناصر چھ ماہ سے لاپتہ تھا اور وہ اب اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں ان خواتین کے ساتھ پولیس تشدد پر احتجاج ہوا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ بلوچستان کے وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بالاچ بلوچ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھا۔

یقینا ان کے پاس اس بارے میں مصدقہ شواہد ہونگے۔ ضروری ہے کہ یہ شواہد فوری طور پر عدالتی کمیشن بنا کر اس کے سامنے پیش کردیے جائیں۔

کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جان اچکزئی سابق مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنیب خان جیسا کردار ادا کر رہے ہیں، اگر ابتدائی دنوں میں ہی حکومتِ بلوچستان عدالتی کمیشن بنا دیتی تو یہ سب جگ ہنسائی نا ہوتی۔ حکومت کو فوری طور پر سپریم کورٹ سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ عدالتی کمیشن قائم کرے، یہ مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہوگا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں