ملک میں نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں، فوجی شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے والوں اور عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو ایک سیاسی جماعت اور اس کے حامی وکلا نے سیاسی مسئلہ بنا رکھا ہے۔
سانحہ 9 مئی کے بعد اس میں گرفتار سیاسی کارکنوں یا عام لوگوں کے ٹرائل پر سپریم کورٹ کے دو فیصلے آ چکے ہیں۔ سانحہ 9 مئی کو تقریباً 8 ماہ ہو رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کوآئینی اور انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ بنا کر بیان بازی بھی جاری ہے۔
اس کا بنیادی مقصد سانحہ نومئی کے ملزمان کو بچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فوجی شہدا کی یادگاروں کی تباہی اور فوجی املاک پر حملے کے علاوہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بڑی تعداد میں فوجی جوانوں کی شہادتوں کا ذکر بھی سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا لیکن پی ٹی آئی اور بعض ممتاز وکلا نے آئینی موشگافیوں اور انسانی حققوق کی آڑ لے کر نو مئی کے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی حکومت میں بانی پی ٹی آئی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حامی تھے اور زور دے کر کہتے تھے کہ سویلینزکا فوجی ٹرائلز ہونا چاہیے مگر جب سانحہ 9مئی میں پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے اور بانی پی ٹی آئی کو بھی اپنے خلاف مقدمات کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا خوف محسوس ہوا تو انھیں فوجی عدالتیں بری لگنے لگیں کیونکہ وہاں انھیں سپورٹ دینے والے موجود نہیں ہیں۔
ملک کے مختلف اداروں کے معاملات کے لیے ملک میں ان کی اپنی عدالتیں اور بعض جگہ ان کی اپنی پولیس بھی موجود ہے۔
یہ خصوصی پولیس اپنے اداروں کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کوگرفتارکرتی ہے اور جن کی اپنی عدالتیں موجود نہیں وہ وہاں اپنے ملزمان کے چالان عام عدالتوں میں پیش کرکے طویل عرصے تک فیصلوں کا انتظار کرتی ہیں کیونکہ ہر عام عدالت سے اعلیٰ ترین عدالتوں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں دیگر مقدمات کی بھرمار ہے اور نیچے سے اوپر تک کی عدالتوں میں مختلف الزامات کے تحت لاکھوں مقدمات سالوں سے زیر سماعت ہیں جن میں ہزاروں مقدمات تو سالوں سے زیر سماعت ہی نہیں آتے ۔
کبھی کبھی اعلیٰ عدالتیں اپنی ماتحت عدالتوں کو جلد سماعت کی ہدایات ضرور دے دیتی ہیں مگر التوا کے خواہش مند آڑے آ جاتے ہیں جن کا مقدمات کی تاخیر میں مفاد ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتی ہدایات پر عمل نہیں ہو پاتا۔ ایسے مقدمات میں وکیلوں کی غیر حاضری، گواہوں کا پیش نہ ہونے کے علاوہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وکلا اور گواہان موجود ہوں اور عدالتوں میں آئیں تو پتا چلتا ہے کہ جج صاحب ہی نہیں آئے جس پر کیس خود بخود التوا کا شکار ہو جاتا ہے۔
ملک بھر کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات سماعت کے منتظر ہیں مگر عدالتوں میں تعلیمی اداروں کی طرح گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں۔
ملک میں عام عدالتوں کے علاوہ نیب کی احتساب عدالتیں، بینکوں کے معاملات کے لیے بینکنگ کورٹس، دہشت گردی کے کیسز کے لیے انسداد دہشت گردی کورٹس، کسٹمرز معاملات کی بھی خصوصی عدالتیں اور دیگر اداروں کی بھی عدالتیں کام کر رہی ہیں جب کہ پہلے ملک کے بڑے بلدیاتی اداروں میں میونسپل مجسٹریٹ ہوتے تھے جو بلدیاتی قوانین پر عمل نہ کرنے پر سزائیں دیتے اور جرمانے کیا کرتے تھے۔
جن کے عہدے ختم کیے جانے کے بعد بلدیاتی قوانین کی خلاف ورزیاں عام ہو چکیں اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ لیبارٹری سے ثابت ہونے پر چالان عدالتوں میں پیش ہوتا ہے جو خصوصی نہیں عام عدالتیں ہوتی ہیں جہاں سالوں فیصلے نہیں ہوتے ۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عدالت عظمیٰ میں مقدمات جلد نمٹانے پر توجہ دی ہے مگر عدالتوں میں مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ اپنے خلاف یا مرضی کے یا جانبدارانہ فیصلوں پر اپیلیں بڑھ گئی ہیں اور مقدمات کی طرح ملک میں وکیلوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ اب پولیس تو کیا ججز بھی وکیلوں سے خوف زدہ رہتے ہیں اور وکلا اپنی فیس کے لیے سائیلین کو اعلیٰ عدالتوں میں جانے کے مشورے دیتے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی مقدمات کا بوجھ بڑھا ہوا ہے ، اس میں دیگر جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کا شئیر سب سے زیادہ ہے، پی ٹی آئی کے وکلاء الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف دھڑا دھڑ درخواستیں دائر کرتے ہیں، سانحہ نومئی کے ملزمان کو بچانے کے لیے بھی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں، کبھی انتخابی حلقہ بندیاں رکوانے کے لیے درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔
جب دیگر اداروں کی اپنی عدالتیں ہیں جو ان ہی اداروں کے مقدمات نمٹاتی ہیں تو فوجی تنصیبات پر سویلین سیاسی رہنما اور کارکن حملے کریں، کور کمانڈر ہاؤس جلائیں، فوجی شہدا کی یادگاریں تباہ کریں، عوام کو فوج کے خلاف اکسائیں تو ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات کیوں نہ چلیں؟ جہاں فیصلے جلد ہونے اور فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیلوں کا حق بھی ملتا ہے تو فوجی عدالتوں کی مخالفت کیوں؟