11

سرسید احمد خان اور تعلیم کے میدان میں ہمارا طرزِ عمل

[ad_1]

سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو علمی ترقی پر گامزن کرنے کےلیے بھرپور کوشش کی۔ (فوٹو: فائل)

سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو علمی ترقی پر گامزن کرنے کےلیے بھرپور کوشش کی۔ (فوٹو: فائل)

سرسید احمد خان انیسویں صدی کے ہندوستان کی ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف ایک بصیرت والے مصلح تھے، بلکہ سماجی ترقی کی بنیاد کے طور پر مسلمانوں کی تعلیم کے سب سے بڑے حامی بھی تھے۔ سرسید برِصغیر کی وہ شخصیت تھے جنھوں نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ اگر آگے بڑھنا ہے، مقابلہ کرنا ہے، کچھ بن کر دکھانا ہے، تو تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو سب کچھ دے سکتا ہے۔

جس زمانے میں سرسید نے آنکھ کھولی وہ مسلمانوں کی ہر سطح پر زوال کا دور تھا۔ سیاست میں دیکھا جائے تو برِصغیر میں مسلمانوں سے اقتدار چھن چکا تھا۔ علم کا معاملہ تو یہ تھا کہ مسلمان پوری دنیا سے پیچھے ہوگئے تھے۔ اس پرشکوہ دور میں سرسید نے مسلم قوم کی اصلاح کےلیے تعلیم کا بیڑہ اٹھایا۔ انھوں نے تعلیم کے ساتھ معاشرتی اصلاح کا بھی بیڑہ اٹھایا۔ جس کےلیے اُن کے قلم نے ’تہذیب الاخلاق‘ جیسا اصلاحی رسالہ نکالا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تہذیب اور سائنس کی برکات سے روشناس کرانا تھا تاکہ وہ ایک اصلاح و تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قوم بن سکیں۔ سرسید کے اقدامات، خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام نے، نوآبادیاتی ہندوستان کے تعلیمی منظرنامے میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ ساتھ ہی پسماندہ طبقات کو بااختیار بنایا اور فکری روشن خیالی کو فروغ دیا۔

سرسید احمد خان ہندوستانی تاریخ کے ایک ہنگامہ خیز دور میں روشن خیالی اور ترقی کی روشنی کے طور پر ابھرے۔ 1817 عیسویں میں دہلی کے ایک شریف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سرسید نے 1857 عیسوی کی بغاوت کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی زوال کا خود مشاہدہ کیا۔ سماجی ذمے داری کے گہرے احساس اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو بلند کرنے کے عزم سے متاثر ہوکر، سرسید نے نوآبادیاتی ہندوستان میں تعلیم کی اصلاح کےلیے تبدیلی کا سفر شروع کیا۔

جدوجہد اور مخالفت

سرسید کی تعلیمی اصلاحات کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جن میں قدامت پسند اور وہ مذہبی رہنما بھی شامل تھے جو مغربی تعلیم کو اسلامی اقدار کےلیے خطرہ سمجھتے تھے۔ مزید یہ کہ مالی مجبوریوں، انتظامی رکاوٹوں اور ادارہ جاتی مزاحمت نے ان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں نمایاں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان مسائل کے باوجود سرسید تعلیمی اصلاحات کےلیے ایک جدید، روشن خیال مسلم کمیونٹی کےلیے اپنے عزم کو عملی جامہ پہنانے کےلیے تمام مشکلات کے خلاف ثابت قدم رہے۔ اس تبدیلی کےلیے انھوں نے ہر طرح کی مشکلات برداشت کیں، بقول مولانا الطاف حسین حالی ’’سرسید نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور سب پر غالب آگئے‘‘۔

سرسید احمد خان تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’عام مقصد جس کے سبب سے تعلیم پر توجہ ہوتی ہے، خواہ تعلیم پانے والے خود اس پر متوجہ ہوں یا اطفال کے مربیوں نے اطفال کی تعلیم پر توجہ کی ہو، یہ ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہوتی ہے کہ ایک جاہل کندۂ ناتراش سے لکھا پڑھا آدمی زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اور وہ تعلیم جس درجہ کی ہوئی ہو، زندگی کے کاروبار میں اس کےلیے نہایت مفید اور کار آمد ہوتی ہے۔‘‘

مغربی تعلیم

مغربی تعلیم کی قدر، اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، سرسید نے مغربی طرز کی تعلیم کا نصاب ترتیب دیا۔ یہ نصاب ایسے ہی نہیں بنایا بلکہ سرسید نے اس کےلیے برطانیہ کا دورہ کیا، وہاں کے نظامِ تعلیم کو باقاعدہ سمجھا۔ ساتھ ہی جہاں خامیاں نظر آئیں، انھیں بھی واضح کیا، لیکن خامیوں سے زیادہ خوبیوں کو ہی چنا۔ انھوں نے ایک ایسا نصاب تیار کرنے کی کوشش کی جس میں درایت اور روایت کے بہترین عناصر کو ملایا جائے تاکہ طلبا میں فکری تجسس اور تنقیدی تحقیقات کے جذبے کو فروغ دیا جائے۔ اس موقع پر انھیں ’’کافر، ملحد، لامذہب، دجال، کرسٹان‘‘ کے خطاب ملے اور کفر کے فتوے لکھے گئے، لیکن انھوں نے اس مخالفت کی مطلق پروانہ کی اور بڑے استقلال سے اپنا کام جاری رکھا۔ سرسید کا یہ بہت بڑ اکارنامہ تھا، یہ تعلیم گاہ نہیں تھی، تربیت گاہ بھی تھی۔ بعد میں لوگوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ سرسید مسلمانوں کےلیے کتنا عظیم کام کرگئے۔

سرسید کی تعلیمی اصلاحات کا اصل مقصد

سرسید نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان صرف انگریزی تعلیم میں ہی پیچھے نہیں، بلکہ علم کے ہر میدان میں پیچھے ہیں، تو انھوں نے مسلمانوں کو علمی ترقی پر گامزن کرنے کےلیے بھرپور کوشش کی۔ سرسید کی یہ کوشش آج ملکی سطح پر کہیں نظر نہیں آرہی۔ آج ایسے دانشور نظر نہیں آرہے جو قوم کی اصلاح کرسکیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے تعلیم کا جو مقصد تھا، وہ کہیں دور چلا گیا ہے۔ اسی طرح سرسید نے لوگوں کو اس حقیقت کی طرف بھی نشاندہی کی کہ جہاں لوگ کاہلی کو صرف جسمانی کام چوری سمجھتے تھے، انھوں نے واضح کیا کہ دلی قویٰ کو بے کار چھوڑدینا بھی کاہلی ہے۔

وہ لکھتے ہیں:

’’یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا، کام کاج، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔ یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزار پڑھے لکھوں میں سے شاید ایک کو ایسا موقع ملتا ہوگا کہ اپنی تعلیم کو اور اپنی عقل کو ضرورتاً کام میں لاوے لیکن اگر انسان ان عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قویٰ کو بے کار ڈال دے تو وہ نہایت سخت کاہل اور وحشی ہوجاتا ہے۔‘‘

یعنی یہ بھی واضح کردیا کہ خالی ڈگریاں لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے شعور کا صحیح طور پر استعمال کریں تاکہ کامیاب زندگی گزاری جاسکے۔

تعلیم اور تربیت

سرسید احمد خان ہندوستان کے وہ پہلے مصلح تھے کہ جنھوں نے ’تعلیم‘ اور ’تربیت‘ کو الگ الگ کرکے لوگوں پر واضح کیا کہ تعلیم اور تربیت دو الگ اجزا ہیں، یعنی جو کچھ انسان میں ہے، اسے باہر نکالنا یہ تعلیم ہے۔ اور جو حاصل کیا اسے کسی کام کے لائق بنانا یہ تربیت ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

’’جو قوتیں خدا تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہیں، ان کو تحریک دینا اور شگفتہ اور شاداب کرنا انسان کی تعلیم ہے۔ اور اس کو کسی بات کا مخزن اور جامع بنانا اس کی تربیت ہے۔ جیسے جہاز بنانے کے بعد اس پر بوجھ لادنا اور حوض بنانے کے بعد اس پر پانی ڈالنا۔‘‘

سرسید نے ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ واضح کیا کہ وہ اپنے علم کو بروئے کار لاکر معاشرے میں دوبارہ اپنی عظمتِ رفتہ بحال کریں، اس کےلیے علم بھی حاصل کیا جائے اور ساتھ میں اسے اپنے عمل میں بھی لایا جائے۔

نئی نسل اور تعلیم

سرسید احمد خان نے جو تعلیمی جدوجہد کی، وہ آج کے معاشرے میں کہیں نظر نہیں آرہی۔ پاکستان تعلیم کے میدان میں دنیا سے مسلسل پیچھے ہوتا جارہا ہے۔ ادراکی صلاحیتیں اور عقل و شعور کا صحیح استعمال کہیں نظر نہیں آرہا۔ تنقیدی سوچ ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ لوگوں میں دلائل ختم ہوگئے۔ ستر سال سے زائد عرصے میں کوئی ایسا ذہن پیدا کرنے میں ناکام (سوائے چند کے) ہوگئے ہیں جس نے تعلیم میں کوئی خاص تاثر چھوڑا ہو۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلاً: جس طرح مہنگائی کی شرح اوپر جارہی ہے، غربت مزید بڑھتی جارہی ہے۔ ایک خاندان اپنا پیٹ پالے یا بچوں کو تعلیم دلوائے۔ اسی طرح ایک وجہ نئی نسل کی ’سوشل میڈیائی سوچ‘ ہے، وہ جو میڈیا پر دیکھتی ہے، اسے فوراً اپنا لیتی ہے۔ کوئی تحقیق نہیں، کچھ نہیں، بس جو دیکھا، اُسے اپنا لیا یا پھر آگے بھیج دیا۔ انھیں صحیح تعلیم دینے کےلیے کوئی شخصیت نہیں ہے۔

سرسید کے تعلیمی مقصد کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟

انفرادی طور پر اپنا کام نباہنے کے ساتھ اصل کام حکومت کا ہے کہ وہ کس طرح سرسید کے علمی مقصد کو آگے لے کر جائے۔ اس کےلیے چند تجاویز قلم بند کی جاتی ہیں:

• ایسے اہلِ علم تلاش کیے جائیں جو تحقیق کے ساتھ تنقیدی سوچ بھی رکھتے ہوں۔
• طلبا میں ’علم‘ کے ساتھ ’حلم‘ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا جائے۔
• روایت اور درایت، دونوں کو ساتھ متوازن رکھا جائے۔
• تنقیدی سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
• مفت تعلیم کےلیے اقدامات کیے جائیں۔
• تعلیم کی اہمیت کےلیے لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔
• تحقیق کے شعبے کو مزید وسعت دی جائے۔
• نئے آئیڈیاز دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
• دوسروں کی بنائی ہوئی ایجادات کو استعمال کرنے کے ساتھ خود بھی اپنا حصہ ڈالا جائے۔
• سائنس کے شعبے میں محنت کی جائے۔

تعلیم ہی اصل میں وہ ہنر ہے جو کسی بھی قوم کی ترقی کا ضامن ہے، اگر اسی کو پس پشت ڈال دیا، تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اس لیے مصلحین، علما، دانشور، ماہرِ تعلیم کو چاہیے کہ وہ قوم کےلیے آگے آئیں اور اپنا کردار اپنی حیثیت کے مطابق کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں