[ad_1]
پاکستان میں آج کل یہ خیال عام ہورہا ہے کہ قوم پاکستانی مصنوعات خریدے۔ لیکن ہماری قوم نے اسے ملکی معیشت میں بہتری لانے کے حقیقی جذبے سے اختیار نہیں کیا، حالانکہ اس سے ملکی معیشت کو بھی براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔
اس کے پیچھے آئیڈیا یہ ہے کہ پاکستانی مصنوعات کو فروغ دیا جائے اور پاکستانی برانڈز اور مقامی مصنوعات کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جائے۔ اسی طرح، غیر ملکی برانڈز اور درآمدی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے حجم میں کمی لائی جائے اور ملک کے قیمتی غیرملکی زرمبادلہ کی بچت ہو۔
ہر ترقی یافتہ ملک کی طرح پاکستان کے مقامی برانڈز کا کردار نہایت اہم ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ملک میں چھوٹے و درمیانی کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) اور مستحکم صنعتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے خود کفیل ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور مقامی مارکیٹ کی طلب پائیدار انداز سے پوری ہوتی ہے۔ بلاشبہ، نئی ملازمتیں، جز وقتی کاروبار، آمدن میں اضافے اور ٹیکس ریونیو ملکی معیشت کے استحکام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ جاپان اور جرمنی دنیا میں معاشی طور پر مثالی ملک شمار ہوتے ہیں لیکن پڑوسی ممالک جیسے چین، بھارت اور بنگلہ دیش بھی ہمارے لیے قابل ذکر مثالیں ہیں۔
ملک میں مقامی سطح پر مصنوعات کی پیداوار سے عالمی سپلائی چینز پر انحصار بھی کم ہوجاتا ہے اور معیشت پر بیرونی عوامل جیسے تجارتی تنازعات، جغرافیائی سیاسی تناؤ، یا قدرتی آفات سے منسلک خطرات بھی گھٹ جاتے ہیں۔ ملک میں مقامی سطح پر مصنوعات کی تیاری کی بدولت افراط زر بھی قابو میں رہتا ہے کیونکہ مقامی مصنوعات کی قیمتیں ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں اتار چڑھاؤ سے متاثر نہیں ہوتیں، جس میں غذا اور صحت عامہ کے شعبے نہایت اہم ہیں۔
ملک میں پاکستانی برانڈز کی مصنوعات کے فروغ کی مہم تاریخ میں پہلے کبھی اتنی کامیاب نہیں رہی، جتنی اس بار دینی و انسانی بنیاد پر غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں پاکستانی مصنوعات کے فروغ کی مہم سامنے آئی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ اور غیر انسانی حملوں سے خواتین اور بچوں کی اکثریت سمیت 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ سمیت فلسطین کے مسلمانوں کی عوامی سطح پر حمایت کا واحد آپشن یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کےلیے فراخدلی سے عطیات دیے جائیں اور ایسی غیر ملکی کمپنیوں اور ان کے برانڈز کا بائیکاٹ کیا جائے جن کے یہودی ریاست سے تعلقات ہوں۔
پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے غیر ملکی برانڈز کے بائیکاٹ کا رجحان نہایت موثر رہا ہے جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے خلاف آگہی مہمات ہیں۔ یہ مہمات ملکی معیشت کےلیے فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ حالیہ مہینوں میں صارفین کی قابل ذکر تعداد نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے یقین کے ساتھ اپنا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں، متعدد مقامی برانڈز کی فروخت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، اور یہ اپنی پوری پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ مشروبات اور کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والی بعض کمپنیاں بھی اپنی پیداوار بڑھانے کےلیے تیار ہیں۔ یہ دیکھنا حیران کن ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کےلیے مختلف نئے مقامی برانڈز متعارف کرائے جارہے ہیں جس سے سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری آرہی ہے اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔
حال ہی میں کراچی کے ایکسپو سینٹر میں مغربی برانڈز کی متبادل مقامی مصنوعات اور برانڈز سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کےلیے ’میرا برانڈ پاکستان‘ کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا گیا۔ اس منفرد تجارتی نمائش میں 100 کمپنیوں اور 300 کے لگ بھگ برانڈز نے اپنی مصنوعات پیش کیں۔ بدقسمتی سے، مقامی برانڈز کی تعداد ملکی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے بھی ناکافی ہے۔ لہٰذا، ہمیں مغربی اور غیرملکی مصنوعات کے خلاف ہر متبادل کا برانڈ تیار کرنا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی اور غیر ملکی مارکیٹوں کےلیے پاکستانی ماہرین میک اپ تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستانی برانڈز نہ صرف کافی اچھے ہیں بلکہ ان میں اپنی برآمدات دنیا بھر میں پھیلانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر، ہم اعلیٰ معیار کے ملبوسات، کھیلوں کی اشیاء، سرجیکل کا سامان، اور خوردنی اشیاء تیار کرتے ہیں اور انہیں مختلف ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔ ہماری بعض کمپنیوں نے معروف برانڈز کی شکل میں اپنی پہچان قائم کرلی ہے، جبکہ یہاں بھی بیشتر کمپنیاں مشہور عالمی برانڈز کےلیے اپنی مصنوعات تیار کرتی ہیں جن میں ملبوسات قابل ذکر ہیں۔ تاہم، مقامی منڈیوں اور برآمدات کےلیے بھی مصنوعات کا بلند معیار رکھا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی کا استعمال، آئیڈیاز میں جدت لانا اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون تیزی سے ترقی کرنے کی کلید ہے۔
غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک ملکی معیشت کےلیے خوش آئند ہے اور حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں نئی حکومت ایک طویل المیعاد پالیسی وضع کرے اور مقامی صنعتکاروں کو فنانسنگ کی سہولیات، خام مال اور مشینری کی درآمدات پر ڈیوٹیز میں کمی لانے کی یقین دہانی کرائے۔ اس وقت بہت سے صنعتی زون ویران دکھائی دے رہے ہیں اور خاص طور پر نوری آباد، دھابیجی، سائٹ انڈسٹریل ایریا وغیرہ میں نئے یونٹس کی تعمیر نہیں ہورہی ہے۔ حکومت کو مقامی طلب کو پورا کرنے اور پیداوار کو بڑھانے کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ نئے پیداواری پلانٹس لگانے کےلیے ایک کم لاگت کی مالی اسکیم متعارف کرانی چاہیے۔ اس طرح زیادہ موثر اور تیزرفتاری سے درآمدات کا متبادل انتظام کیا جاسکے گا، جس کے نتیجے میں قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر کو بچایا جاسکتا ہے۔
حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر 375 ارب ڈالر کی معیشت کو مقامی سطح پر پروان چڑھانے کےلیے پانچ سالہ لوکلائزیشن اقتصادی پلان تیار کرنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link