[ad_1]
آج کل لوگوں کی جانب سے اختلافی تحریروں کا زور ہے۔ لوگ بے تکان اپنی تحریروں میں اختلافی نوعیت کی چیزیں بیان کرتے چلے جارہے ہیں۔ اگر مذہبی تحریروں کو دیکھا جائے، تو ایسی اختلافی تحریریں پڑھنے کو ملیں گی کہ عام آدمی مذہب سے بے زار ہوتا چلا جاتا ہے، مثلاً: عورتوں کے حقوق، وراثت کی تقسیم، خلافت، جنگیں، کنیزوں کے مسائل، قرآن اور حدیث کی تدوین وغیرہ۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ لوگ مذہب سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح تاریخ میں اگر اختلاف نظر آئے گا، تو صرف اختلافی چیزوں پر انتہائی جارحانہ انداز اپنایا جائے گا۔ یہی معاملہ سیاست اور دوسرے موضوعات کا بھی ہے۔ ساتھ ہی اندازِ تحریر اتنا جارحانہ ہوتا ہے کہ جن شخصیات تحقیق پر تنقید ہورہی ہوتی ہے، وہ تحقیق سے ذاتیات تک چلی جاتی ہے۔ ایسی تحریروں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایسے ’لکھاریوں‘ کی طرف توجہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ لوگ نجی محافل میں اختلافی موضوعات پر کھل کر بات کر رہے ہوتے ہیں اور تنقیدوں کے نشتر چلارہے ہوتے ہیں، لیکن جب اُن سے سوالات کیے جاتے ہیں تو جواب ندارد۔
آج کل جس طرح کا ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ کچھ بھی اختلافی بات نظر آئے، اُسے آگے ضرور بھیجتے ہیں اور تحقیق کا تو سوال ہی نہیں ہوتا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اچھے بھلے ’موضوعات‘ پر ایسا دھبہ لگ جاتا ہے کہ مٹائے نہ مٹے۔ اس طرح کی تحریروں میں عام طور پر جو مسائل نظر آتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
1۔ جس موضوع پر تحریر ہے، اُس کا سیاق و سباق کا پیشِ نظر نہ ہونا۔
2۔ مضمون پر مکمل طور دسترس نہ ہونا۔
3۔ کسی فکر کی حمایت کرتے ہوئے تحریر لکھ کر صرف اپنا حصہ ڈالنا۔
4۔ غلطی واضح (اگر غلطی ہے) کرنے کے بعد بہتری کےلیے کچھ نہ لکھنا۔
5۔ لوگوں میں شک وشبہات پیدا ہوجانا۔
ایسی تحریریں معاشرے میں سوائے انارکی پھیلانے کے اور کچھ نہیں کرتیں۔ صرف اختلافی چیزیں لکھنا ہی کچھ نہیں ہوتا بلکہ جو بھی لکھا جارہا ہے اگرچہ اختلافی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس کے مقاصد، نتائج اور تجاویز بھی ضروری ہیں تاکہ ایک قاری اس تحریر سے کچھ اپنی جیب میں لے کر جائے۔ اگر کسی کا ذہن تنقیدی ہے، اور وہ اختلافی نوعیت کی چیزیں ہی لکھنا چاہتا ہے، تو ضرور لکھے، تاکہ وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرسکے اور دوسروں کو اس پر سوچنے کا موقع بھی مل سکے۔ اگر تنقیدی ذہن نہیں ہوگا، تو معاشرے میں نئی سوچ پیدا نہیں ہوسکتی۔ کچھ لوگ ظاہری چیزوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرجاتے ہیں، لیکن اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک نئے زاویے سے سوچتے ہیں، ان کی فکر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ واقعی اگر فلاں موضوع کو اس نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ اچھی تحریر کےلیے درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
1۔ جس موضوع پر لکھ رہا ہے اس کے بارے میں مکمل معلومات ہوں۔
2۔ سیاق و سباق پیشِ نظر رہے۔
3۔ تنقید کے اصولوں پر عمل پیرا رہے۔
4۔ تنقید میں تعمیری پہلو پیشِ نظر رہے۔
5۔ ذاتیات سے بالاتر ہوکر لکھے۔
6۔ تحریر کے مقاصد لکھے۔
7۔ اپنے نتائج لکھے تاکہ لوگ اس رائے کو سمجھتے ہوئے خود بھی نتیجہ اخذ کرسکیں۔
8۔ اپنی تحریر کے اختتام پر کچھ نہ کچھ تجاویز بھی لکھے تاکہ اس کی تحریر کا اختتام اچھا ہو۔
معاشرے کی اصلاح صرف ماضی کی غلطیاں بیان کرکے کبھی نہیں ہوسکتی۔ مغرب نے اپنی غلطیوں سے رجوع کیا ہے اور اب وہ آگے کی جانب (علم و تحقیق) مسلسل گامزن ہیں۔ عظیم لوگوں کی تحریریں پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جب تنقید کی، غلطیوں کے نشان دہی کی۔ ساتھ ہی لوگوں کی اصلاح اور تجاویز بھی دیں تاکہ لوگ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے درست سمت میں چل سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link