[ad_1]
زندگی کی ریل پیل کے دوران ہر بار کچھ مناظر نا صرف آنکھوں کو ڈبڈبا جاتے ہیں بلکہ ذہن کے پردے پر بہت سارے سوالیہ نشان بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منظر ذہن پر ہر بار نقش ہوجاتا ہے، جس میں بہت سارے محنت کش مصروف علاقوں کی سڑکوں پر اپنے اوزار لیے کام کی تلاش میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ جب کوئی صاحب گاڑی سے اتر کر ان کی طرف بڑھتے ہیں تو تمام مزدور دوڑ کر ان کی طرف لپکتے ہیں۔ اس امید پر کہ شاید آج دیہاڑی لگ جائے اور وہ روزی روٹی کما کر گھر لوٹیں۔ اپنے معصوم بچوں کے مرجھائے چہروں پر زندگی کی رمق دیکھ سکیں، ان کی محروم آنکھوں میں رکھے تمام خواب اور کھلونے خرید کر دے سکیں۔
’’ہیں سخت بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘‘
آج دنیا بھر میں عالمی یومِ مزدور جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے وطنِ عزیز پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینارز، کانفرنسز اور پرامن ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور یہ عہد کیا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کےلیے ہر ممکن عملی اقدامات کئے جائیں گے۔
یہ دن عالمی سطح پر محنت کشوں کو درپیش مسائل بے روزگاری، کم اجرت، ملازمت کے تحفظ، آزادئ اتحاد اور سماجی تحفظ وغیرہ کا مؤثر حل تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ محنت کشوں کا دن شکاگو کے مزدوروں کی پرعزم جدوجہد کی یاد تازہ کرتا ہے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے تناظر میں ہر سال یکم مئی کو منایا جاتا ہے۔
مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یکم مئی کی تحریک دراصل امریکا میں انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوجانے والی تحریکوں کا تسلسل تھی۔ 1806 میں امریکا کے مزدوروں نے اوقاتِ کار میں کمی کی تحریک شروع کی تھی۔ 1827 میں 15 مزدور یونینز نے اتحاد کرکے بھی اوقاتِ کار کےلیے تحریک چلائی تھی۔ 1861 میں امریکی کانوں کے محنت کش بھی منظم ہوچکے تھے۔ 1864 میں پہلی مرتبہ مختلف مزدور تنظیموں نے بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا۔ اور مزدور تحریک کا روپ دھار لیا جبکہ صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام پر برطانیہ میں ہوا۔
یہ وہ وقت تھا جب صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات بہت خراب تھے۔ انہیں بہت زیادہ وقت دینا پڑتا تھا، اجرت بہت کم ملتی تھی، جبکہ حقوق نہ ہونے کے برابر تھے۔
1884 میں فیڈریشن آف ٹریڈ یونین نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ مطالبات کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ مزدوروں کے اوقاتِ کار کو 16 گھنٹوں سے کم کرکے 8 گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا کہ 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے ہونے چاہئیں۔ یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگو کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔ مگر اس مطالبے کو قانونی طور پر منوانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوگئیں، اس لیے یکم مئی سے اس وقت تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا جب تک مطالبات پورے نہیں کیے جائیں گے۔
16 ، 16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8 گھنٹے کام کا نعرہ بے انتہا مقبول ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ اپریل 1886 تک مزدور متحد و منظم ہوکر اس ہڑتال میں شامل ہونے کو تیار ہوگئے۔
امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کیے جانے والے معاشی استحصال کے خلاف احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل پڑے۔ پولیس نے جلوس پر فائرنگ کرکے سیکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ درجنوں کو اپنے حقوق کےلیے آواز اٹھانے کی پاداش میں پھانسی بھی دی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ مزدوروں پر فائرنگ کے دوران ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کرکے ہوا میں لہرا دیا، اس کے بعد سے سرخ جھنڈا مزدور تحریک کی پہچان بن گیا۔
اس افسوس ناک واقعے نے مزدور تحریک کو تقویت بخشی اور مزدوروں کے حقوق کےلیے اپنی جانوں کی بازی ہارنے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کےلیے بالآخر 1891 سے یکم مئی کو بطور یومِ مزدور منانے کا آغاز ہوا۔ پاکستان بھر میں محنت کشوں کا دن منانے کی باقاعدہ ابتدا 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوئی۔
مہنگائی نے ہمارے ڈیلی ویجر مزدوروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اس ضمن میں انسانی و مزدوروں کے حقوق کےلیے سرگرم اربن ریسورس سینٹر سے وابستہ زاہد فاروق کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے ہاں مزدوروں کی صورتِ حال دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا ہے۔ ہماری سرکار نے مزدور کےلیے کم سے کم اجرت کا تعین کیا ہوا ہے لیکن افسوس کہ وہ ہر مزدور کو اب تک میسر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2023 اور 2024 کے بجٹ میں نان اسکلڈ مزدور کی اجرت 32000 اور اسکلڈ ورکر کی اجرت 36000 مقرر کی گئی تھی، مگر اکثریت کو وہ نہیں مل رہی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو ڈیلی ویج پر رکھا جاتا ہے۔ ان سے بہت زیادہ محنت مشقت کروائی جاتی ہے۔ اوقاتِ کار بہت زیادہ ہوتے ہیں جبکہ معاوضہ بہت ہی کم دیا جاتا ہے۔
زاہد فاروق نے کہا کہ ان مجبور حالوں کو حق بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ وقت نہیں دے سکتے تو بے شک کل سے نہ آئیں۔ ہمارے ہاں فاسٹ فوڈ، ہوم میڈ کھانا بنانے، آٹو مکینک اور آئی ٹی کی فیلڈ میں نوجوان (لڑکوں/ بچیوں) کےلیے مواقع بڑھے ہیں مگر ان تمام کاموں میں جس قدر محنت ہوتی ہے، اس کے مطابق اجرت کا تعین کہیں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ہمارے سینیٹری ورکر، ہیلتھ ورکر، کنڈی مین ورکر بہت مشقت کرتے ہیں۔ انہیں اس کا صلہ نہیں ملتا۔ اتوار اور مذہبی تہواروں پر چھٹی بھی نہیں ملتی۔ کام کے دوران مزدوروں کی صحت بھی اکثر متاثر ہوجاتی ہے۔ ان کے خاندانوں اور آبادیوں کے مسائل بھی سنگین صورتِ حال اختیار کرگئے ہیں۔ ہمارے انسانی حقوق کے اداروں، حکومتی اداروں اور عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ان تمام پہلوؤں پر غور کریں۔ مزدوروں کے حقوقِ کےلیے قانون سازی کریں۔ مزدوروں اور ان کے گھرانوں کے معاشی حالات بہتر بنانے کےلیے مؤثر عملی اقدامات کریں۔
اسی طرح ہمارے ہاں کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والے مزدوروں، عورتوں، مردوں کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔ چاہے وہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہوں، پتھر توڑتے ہوں یا پھر کارخانوں، ملوں، فیکٹریوں اور دفتروں میں دن رات ایک کرتے ہوں۔ انہیں ان کی محنت کی پوری اجرت نہیں ملتی، جاب سیکیورٹی تو بہت دور کی بات ہے انہیں کوئی جوائننگ لیٹر بھی نہیں دیا جاتا۔ ان کے پاس کام کرنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اکثر اپنے قانونی حقوق سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
محنت کشوں کی حالت زار کے بارے میں سینئر کالم نگار و صحافی یوسف سیف نے تجزیاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’آج کے حالات اور مہنگائی کو سامنے رکھا جائے تو مزدوروں کےلیے گورنمنٹ کی جانب سے مقرر کردہ تنخواہ ناکافی ہے۔ اس آمدنی میں مہینے بھر ایک خاندان کا گزارا ناممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے سدباب کےلیے لیبر ڈپارٹمنٹ اور لاء ڈپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ نجی اداروں، فیکٹریوں، کارخانوں، ملوں، دفتروں کے مالکان کو مزدوروں کے حقوق دینے کا پابند بنائیں۔
روزگار کے مواقع، بہترین اجرت، تقرری لیٹر، جاب کا تحفظ، سوشل سیکیورٹی، خاندان بھر کےلیے صحت کی سہولیات ہر قسم کے مزدوروں کا حق ہیں۔ اسی طرح کھیت مزدور کےلیے بھی عدالتی نظام ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے جائز حقوق کےلیے آواز بلند کرسکیں، عدالت سے رجوع کرسکیں اور محرومیوں سے باہر نکل ائیں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں مزدور پیشہ افراد کے معاشی حالات میں اب تک خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ انہیں ہر روز کھڈا کھود کر اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہوتی ہے۔ ہوائی روزی کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ بیمار ہوجائیں تو دو وقت کی روٹی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ ہمارے مزدوروں کو ان کی محنت مشقت کا جائز حق اب بھی نہیں ملتا۔ ان کے بچوں کو مستقل بنیادوں پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی میسر نہیں ہوپاتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link