14

حلف کی بے توقیری – ایکسپریس اردو

[ad_1]

حلف اٹھانے کی رسم کو ہی ختم کردیں۔ (فوٹو: فائل)

حلف اٹھانے کی رسم کو ہی ختم کردیں۔ (فوٹو: فائل)

حلف کے معنی قسم کھانا ہے۔ اسلام کے احکامات کی روشنی میں اگر قسم پختہ عزم کے ساتھ کھائی گئی ہو تو اُس پر مواخذہ ہوگا اور توڑنے پر کفارہ لازمی آئے گا۔ کسی بھی اچھے معاشرے میں حلف اٹھانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اُس شخص کو عہد وپیما میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد کرے اور ایسے حلف نامہ (قسم) کو ’’یمین منعقدہ‘‘ کہتے ہیں اور ایسے عہد کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔

اگر کوئی شخص کسی اجتماعی ذمے داری پر فائز ہو اور اس نے اصول و ضوابط کے مطابق کام کرنے کا حلف بھی اٹھایا ہو لیکن پھر بھی وہ حلف توڑ ڈالے تو اِس حوالے سے قرآن عظیم میں متعدد جگہ ایسے افراد کے بارے میں جو کہ حق کے انکار کا راستہ اختیار کرتے ہیں ذکر ہے، جیسا کہ:

’’اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج ان دوزخ والوں میں نہ ہوتے‘‘ (الملک 10:67)

’’سو کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر ان کے تالے چڑھے ہوتے ہیں‘‘ (محمد 24:47)

’’تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے (اے پیغمبر) جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟ پھر کیا تم اُس کا ذمہ لے سکتے ہو؟‘‘ (الفرقان 43:25)

’’(اس وقت) میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں اِس لیے کہ میری تدبیر بڑی محکم ہے‘‘ (الاعراف183:7)

قرآن مجید میں جگہ جگہ انسان کی نفسیات اور حق و سچ کے بارے میں ذکر ہے۔ قرآن کے مخاطبین کے سامنے دو ہی انتخاب ہیں ایک یہ کہ وہ قرآن عظیم کی شخصیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور حق و سچ کا راستہ اختیار کریں، دوسرا یہ حق پرستی کے بجائے انکار، اعتراض، مخالفت، عناد، نفاق اور حجت بازی جیسے رویے اختیار کریں۔ اب اگر ہم پاکستانی معاشرے کو دیکھیں تو ایک کثیر تعداد دوسرے انتخاب کی گرویدہ نظر آتی ہے اور قرآن کی روشنی میں ایسے افراد بات سننے کے بجائے کانوں کو بند کرلیتے ہیں اور دلائل پر غوروفکر کرنے کے بجائے اپنی آنکھوں کو حقائق کے دیکھنے اور دل کو ان پر غور و فکر کرنے کےلیے بند کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقتاً شیطان کی طرح سامنے والے کے مقابلے میں صرف اپنی فضیلت اور برتری قائم رکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے آپ کو حق پرست ثابت کرنے کےلiے ایسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں جہاں سوال کے بجائے بے جا اعتراض اور غیر متعلق گفتگو کی جاتی ہے اور سچائی کو غیر موثر کرنے کےلیے مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور دلیل کا جواب حجت بازی، تمسخر، ضد، اندھی مخالفت، اعراض، دشمنی اور مکرو فریب کے ذریعے سچائی سے انکار کیا جاتا ہے۔

ایسے لوگ جب بھی کسی مصیبت میں آتے ہیں تو یہ لوگ فوراً اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے اور اُس غلطی کی اصلاح کا عزم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں یہ لوگ واپس اپنی پرانی روش پر لوٹ جاتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ڈھیل دی جاتی ہے اور یہاں تک کہ خدا کی پکڑ آجاتی ہے۔

اوپر باندھی گئی تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ حکومت حلف کا منکر نظام ہے۔ جہاں وطن عزیز میں رشوت ستانی، سرکاری وسائل کا غیر قانونی اور لامحدود استعمال، متروکہ املاک کی لوٹ مار اور قانون کی مسلسل تحقیر اور بے توقیری ہورہی ہے۔

اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1947 سے آج تک بحثیت قوم ہم ایک ایسا سسٹم بھی نہ بنا سکے جس کے ذریعے صاف اور شفاف الیکشن کرواسکیں۔ مالی کرپشن اور اقرباپروری اب ہمارے معاشرے میں اتنی سرائیت کرگئی ہے کہ ملکی الیکشن تو دور کی بات، اب ہم ایک چھوٹی سی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے الیکشن بھی دیانتداری سے نہیں کرواتے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے پسند کی قیادت چاہیے، چاہے وہ قیادت ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔

جس معاشرے میں آئین و قانون کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کیا جائے اور جزا اور سزا کا تصور ختم ہوجائے، وہاں کرپشن اور اقربا پروری جیسا ناسور ہی جنم لیتا ہے۔

ہمارے ملک میں جب بھی کوئی نئی قیادت آتی ہے چاہے وہ وفاقی و صوبائی وزرا ہوں یا کسی سول و عسکری اداروں کے افسران ہوں، اُن سے حلف لیا جاتا ہے کہ وہ انصاف، ایمانداری، غیر جانب داری سے اپنے فرائض منصبی ادا کریں گے۔ حقیقتاً جس طرح کا معاشرہ آج ہم نے بہت محنت سے تشکیل دیا ہے اس میں یہ تمام باتیں جو حلف کی زینت ہیں وہ حلف بردار شخص کو بہت شرمسار اور پریشان کرتی ہیں۔ لہٰذا یا تو جو باتیں حلف میں لکھی ہیں انہیں اپنی ضروریات، روایات اور ماحول کے مطابق ڈھال لیں، یا پھر حلف اٹھانے کی رسم کو ہی ختم کردیں۔

آج ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہمیں محمد علی جناح کا پاکستان تعمیر کرنا ہے یا پھر منتشر، نڈھال، کنفیوژ اور ڈرا و سہما پاکستان!

قدرت ہمیں بار بار موقع دے رہی ہے کہ ہم خود کو سدھار لیں اور حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں جو کہ ہمیں قانونی، تعلیمی اور عملی نظام کی راہ پر لے جائے، ورنہ قدرت بار بار کسی کو موقع نہیں دیتی۔ حقیقتاً پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جسے آسمان والا بار بار سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن آخرکب تک؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں