[ad_1]
ارض فسلطین میں سب سے زیادہ ممتا زخمی ہے۔۔۔ گذشتہ ماہ کا ’یوم ماں‘ وہاں کی ماؤں پر عجب گزرا۔۔۔ کہیں بچوں کی مائیں نہ رہیں تو کہیں ماؤں کے ہاتھوں میں شیرخواروں کے کفن تھے۔۔۔ دم توڑتی انسانیت میں حیوانیت قہقہے مارکر ہنس رہی تھی، بے نور ہوئی آنکھیں سوال کر رہی تھیں مجھے اس بے رحمی سے کیوں مارا؟ میرا کیا قصور تھا؟ اف میرے خدا، اس قدر اذیت مسافر نے سر پکڑ لیا۔
دور تک ملبے کے ڈھیروں میں، اینٹوں، مٹی، پتھروں کے ملبوں میں انسانی لاشیں سسک رہی تھیں، تڑپ رہی تھیں، کچھ خون میں لتھڑی ہوئی بے گور و کفن لاشیں، کفن کی دہائی دے رہی تھیں کچھ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے اجتماعی قبروں میں مردہ نظر آئے یعنی زمین میں زندہ بھی دفنائے گئے۔ ماؤں کے سینے سے لگے ہوئے مردہ بچے کی لاشیں پھر جناب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی منتظر نظر آئیں۔
منظر کی دل خراشی دیکھ کر مسافر نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں، کوئی تو ان کا پرسان حال ہو، جو تڑپ تڑپ کر، سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ مررہے ہیں۔ اس کے ہاتھ سے وہ عیدکی خریداری، وہ کپڑے، جوتے، کھلونے، بسکٹ، ٹافیاں چُھٹ کر سب خاک میں مل گئے۔ مسافر کو یوں ڈھیرہوتے دیکھ کر چمن جو پہلے ہی اپنی آگ میں جلتا ہوا آہیں بھررہا تھا اپنی تباہی و بربادی کا نوحہ سنانے کے لیے بے چین ہوگیا۔
تم ماؤں سے پوچھتے ہو نہ کہ وہ مسکراتی صبحیں کیا ہوئیں سب جل کے راکھ ہوگئیں، وہ چمن جو کبھی لہلہاتا و مسکراتا تھا اس کا ہر پھول گاتا تھا سب بارود کے دھوئیں میں کہیں کھوگئے۔ وہ صبح کی قلقاریاں وہ شام کے قہقہے وہ رات کی دل آویزیاں، زندگی کے مدھر گیت گاتی زندگانیاں، لن ترانیاں، سب ہی بموں کے آتش فشاں پہاڑ کے لاوے میں گم ہو گئیں۔ آج ڈھونڈے سے بھی اس زندگی کا نشان نہیں ملتا۔ پتا نہیں ملتا، جاؤ جاکے ڈھونڈو ان کو کل جن کے چہروں پر مسکان تھا۔ آج ان کے قدموں کی چاپ نہیں، کوئی آہٹ، کوئی سایہ اور کوئی نشان نہیں، خون میں لتھڑے ہوئے جسموں کی کوئی پہچان نہیں، کسی کے کپڑے، کسی کے جوتے، کسی کے گھر کا سامان بکھرا ہوا اپنے وارثوں کو آواز دے رہا ہے۔
کون انہیں اٹھائے گا چمن کی وہ بہار دکھلائے گا جب یہ چمن نئی امنگ و نئی ترنگ لیے نئے گیت گاتا تھا دیکھو، جواب میں کیسی ہول ناک خاموشی و ہول ناک سناٹا ہے، جو والی وارث تھا۔کراہتے ہوئے سسکتے ہوئے دم توڑ چکا ہے حسرت و یاس، بے بسی کی تصویر بنا آج اپنے ہی زخمی بچے کو اٹھانے سے قاصر ہے۔ میرے چمن کی تنہائی، ویرانی و وحشت ڈسنے لگی ہے اس سناٹے میں اس ماں کی آواز ضرور سنائی دے رہی ہے ’’ابو عمر کچھ کھالو، تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ وہ ہاتھوں میں کچھ سوکھے ٹکڑے لیے اپنے مردہ لخت جگر کو کھلانے کی کوشش میں اٹھا رہی ہے، جگا رہی ہے۔ مامتا کے دل پر لگی کاری ضربیں فرش تا عرش ہلارہی ہیں۔ بلکی تڑپتی ہوئی ممتا کا دکھ بھلا لفظوں میں کہاں سمٹ سکتا ہے۔ تم کیا جانو؟
تم بھلا ان روتی، بلکتی، سسکتی، تڑپتی ہوئی ممتا کا درد کیا جانو! جن کے معصوم پھولوں کے خوں سے جلے ہوئے دیپ، جنت میں چراغاں کرتے ہوئے خدا سے شکایت کر رہے ہیں، ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کیے جارہے تھے اور امت مسلمہ خاموش تھی تب بھی اور اب بھی ماؤں کا عالمی دن مناتے ہوئے کوئی غزہ کی ان سسکتی ماؤں کو سہارا دینے کاندھا دینے اور ان کے سینے سے لپٹے کفن کو لاشوں کو سینے سے لگانا نہ آیا تم بھلا غزہ میں روتی بلکتی ممتا کا درد کیا جانو۔
سفاکیت نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا، ہنستے کھیلتے چمن کو بچوں کا قبرستان بنادیا ہے۔ ہر کھلتی کلی، ہر پھول مرجھاگیا ہے۔ پھولوں کے دل زخمی ہیں، پتوں کے جگر چھلنی ہیں، وہ دیکھو ذرا کسی کے ہاتھ میں گیند، کسی کے ہاتھ میں گڑیا نہ وہ ہاتھ رہے نہ وہ کھلونوں سے کھیلنے والے کھلونے رہے کچھ ٹکڑے ہیں جو ماتم کرتے ہوئے یہ منظر دکھلا رہے ہیں۔
دور ملبوں کے ڈھیر پر بیٹھی ماں، کچھ ٹکڑے اٹھائے کہہ رہی ہے ابو یوسف یہ تمھارا ہاتھ ہے، یہ تمہارا پاؤں ہے وہ تمہارا سر کہاں ہے، جسے میں سینے سے لگاتی، چومتی و پیار کرتی تھی۔ اندھیرے میں ٹٹولتی ہوئی چاند کی روشنی میں اپنے لخت جگر کے سر کو سینے سے لگایا تو تارے روپڑے، فلک پر چاند نے بادلوں میں منہ چھپالیا، زمین کا سینہ شق ہوا اور مسافر نے کرب سے آنکھیں بند کیں۔ تو بے اختیار اپنوں کی شکلوں نے بے چین کیا ایسے اپنا بھرا پرا گھر اور اپنے ننھے منے گول مٹول بچے یاد آئے۔
میرے کانوں میں اب تک میری ماں کی لوریاں لرزتی تھیں انھیں ڈھونڈ کے پھر سے سنادو، میرے چھوٹے سے کان کی ان سب چیزوں سے جان چھڑا دو، یہ ڈرون کی بھنبھناہٹ ، ایف 16 کی گھن گرج، گھروں، کھیتوں اور جسموں پر گرتے ہوئے بم، سنسناتے ہوئے راکٹوں کی چیخیں، کس طرح ان کو سلادو میرے دل کے زخموں پر کوئی ایسا مرہم لگا دو۔
میری رگوں میں نغمہ زندگی کا وہ انجکشن لگادو، کہ میں ایک بھیانک خواب سمجھ کر سب کچھ بھول جاؤں۔۔۔!
اور اسی کی آواز سے آواز ملاتا ہوا بوڑھا گورکن آج اجتماعی قبریں کھودتے ہوئے اس میں سو، سو لاشیں دفن کرتا ہوا کہہ رہا تھا میرے بوڑھے ہاتھ قبریں کھودتے ہوئے کانپنے لگے ہیں۔ کوئی تو ان ظالموں سے برسرپیکار ہو، امن کا پہرے دار بنے، تاکہ ظلم و جبر کی اس طویل رات کی سویر ہو۔ ٹینکوں کی چڑھائی رک جائے، بارود کا دھواں اڑانے والے ہاتھ شل ہو جائیں، کوئی تو ظلم کے اس کوہ گراں کو توڑ کر امن کی وادی کے وہ پھول کھلادے۔ وہ پھول کھلادے۔
فلسطینیوں کا درد جو آج نوحہ بن کر رہ گیا، آہ بن کر ہونٹوں پر مچل گیا، ظلم کا استعارہ بنا، اسرائیلیوں کا تر نوالہ بنا، تاریخ کو خون سے رنگین کرگیا، دنیا کی زبان پر صدائے احتجاج بن کر بکھرگیا، وہی صدائے درد سات ماہ گزرنے کے بعد بھی امت مسلمہ کی بے حسی و خاموشی پر آج بھی سنائی دے رہی ہے۔
ظلم کی طویل رات کی سحر ہو نہ سکی… نہ ہی دن نکلا نہ ہی سویر ہوئی… چاند نکلا نہ تارے فروزاں ہوئے… درد خیرات تھا یونہی بٹتا رہا… اشک خوں نے کی ضبط کی داستان… حوصلہ کو ندامت ہوئی خاموشی سے ہار کر… موت ہنستی رہی قہقہے مارکر… آدمی آدمی کا شکار ہوا… بوئے گل رہی سرگرداں رات بھر… پھول تو نکلے مگر خون میں ڈوب کر!
فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرتے ہوئے، رنج و الم میں ڈوبے ہوئے اس غیر معمولی نوحے نے چلتے ہوئے مسافر کے قدم روک کر دل کو چھلنی کیا، حال سے بے حال کیا، آنکھوں میں نمی لیے چہار سو چھائے ہوئے اندھیروں سے سوال کیا؟ یہ کیسی اداسی ہے کہ پھولوں کے دل سہمے ہوئے، پتوں کے دل دھڑکے ہوئے، یہ کون یوں مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ وہ جو اس سرزمین کا باسی تھا۔
آج یہ غم کا نوحہ سن کر غم سے نڈھال تھا۔ خون کی بہتی ندیاں دیکھ کر پریشان ہوا، تو دم توڑتے ہوئے، خون میں نہائے پتوں نے یوں کہا ’’یہاں دو سو دنوں سے زندگی کا سورج نہیں نکلا جس کی تلاش میں سات ماہ سے خون کے دریا رواں ہیں۔ چمن کے پتے پتے میں آگ لگی ہے، پھولوں کے دامن چاک ہیں، ہوائیں آنے والے اندیشوں کی خبر دیتی ہوئی سسکیاں لے رہی ہیں، آہیں بھرتی ہوئی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کررہی ہے جو پھیلتی ہی جارہی ہے، سب کو لیپٹتی ہی جارہی ہے، کہاں رکے گا یہ کارواں ، کب ملیں گے منزلوں کے نشان، آشیاں کا تنکا تنکا تو جل اٹھا۔ پتا پتا ہوا دینے لگا۔ پتوں کی چیخ و پکار سن کر ایک بے نام سی خلش و درد کی ہر مسافر کے سینے و رگ و پے میں اترگئی۔
[ad_2]
Source link