[ad_1]
کراچی میں موسم کی شدت نے ڈاکٹرز اور مریضوں کے درمیان طبی مشاورت میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے۔ اس کا اہم حصہ مریض کےلیے تجویز کی جانے والی ادویہ کا نسخہ ہے۔
ایسا ہی ایک ننھے مریض کا طبی نسخہ میڈیکل اسٹور پر جاتا ہے۔ نسخے میں درج ڈاکٹر کی ہاتھ کی لکھائی میڈیکل اسٹور کے ملازمین کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق متبادل دوا دے دیتے ہیں۔ اتفاق سے بچے کی ماں فارماسسٹ ہوتی ہے۔ وہ دوا کی درج تفصیلات دیکھنے ہی سمجھ جاتی ہے کہ دی جانے والی دوا کینسر کی ہے، جب کہ تین سالہ بچہ ہیٹ اسٹروک کا مریض تھا۔
انسانی جانوں سے کھلواڑ کے ایسے مواقع کیوں پیدا کیے جاتے ہیں؟ کبھی سوچا ہے آپ نے؟
ماضی میں مشہور ٹی وی پروگرام میں ایک مریض نے دواؤں کے ڈبوں پر شائع ان کے انگریزی ناموں کے ساتھ اردو میں بھی ان کے نام درج کرنے کی خصوصی درخواست کی تھی۔ ارباب اختیار نے اس کا فوری نوٹس لیا۔ یوں ایک کم تعلیم یافتہ، غیر انگریزی دان فرد کی آواز صدقہ جاریہ بنی۔ دواؤں کے ڈبوں پر اردو میں دواؤں کے نام صرف اردو جاننے والے لاتعداد مریضوں کےلیے آسانیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ماضی کے اس سپوت کی بات اب بھی ادھوری ہے۔ اسے مزید صدقہ جاریہ بننے کی ضرورت ہے۔ کیسے؟
دواؤں کے ڈبوں پر ان کا نام انگریزی اور اردو زبانوں میں بہت واضح اور کمپیوٹرائزڈ چھپا (پرنٹ) ہوا ہوتا ہے۔ یہ دوائیں خریدنے اور بیچنے والوں دونوں کے لیے آسانی ہے۔ دواؤں کے یہی اردو انگریزی نام جب اعلیٰ ترین ڈگری یافتہ مشہور ترین ڈاکٹرز کی (معمے جیسی) ہاتھ کی لکھائی کے ساتھ مریض، مریض کے لواحقین یا دوا بیچنے والوں تک آتے ہیں تو ان کو سمجھنے کےلیے کس کا کتنا وقت برباد ہوتا ہے؟ پھر اس نہ سمجھ میں آنے والے دوا کے نام کی وجہ سے میڈیکل اسٹور والے اپنی سمجھ کے مطابق اس کا متبادل پکڑا دیتے ہیں۔
خریدنے اور بیچنے والے دونوں ہی مجبور ہیں، کہ خریدنے والے کو اپنے مریض کی شفا کےلیے فوری دوا درکار ہوتی ہے اور بیچنے والے کو اپنے کاروبار کی بقا کےلیے جلد از جلد دوائیں نکالنی ہوتی ہیں۔ نتائج مذکورہ واقعے جیسے ہوجاتے ہیں۔ اس واقعے میں تو بچے کی ماں فارماسسٹ ہے تو اس نے قبل از ناگہانی وقت توجہ دے لی۔ مگر کتنے ہی مریض، ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہ آنے والی لکھائی کی وجہ سے درست دوا سے محروم ہوجاتے ہوں گے۔ کتنے ہی متبادل غلط دوا سے شفا سے دور رہ جاتے ہوں گے۔ کتنے ہی مریض اپنی زندگیوں اور لواحقین، اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوں گے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ڈاکٹروں کی طرف سے لکھے گئے نسخے زبان، شکل اور مواد کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ مقامی ضوابط، طبی طریقوں اور ثقافتی اصولوں پر منحصر ہے۔ یہاں کچھ اختلافات ہیں مثلاً: زبان، فارمیٹ اور مواد وغیرہ کا فرق۔
اہم ترین بات یہ کہ نسخے صرف مقامی زبان میں ہی لکھے جاتے ہیں، جیسے کہ امریکا میں انگریزی، فرانس میں فرانسیسی، اسپین میں ہسپانوی، مشرق وسطیٰ کے ممالک میں عربی، چین میں چینی، جاپان میں جاپانی وغیرہ۔
ٹیکنالوجی کی سہولت کے ساتھ اب کچھ ممالک، جیسے امریکا، کینیڈا وغیرہ میں الیکٹرانک نسخوں کے ذریعے مریضوں کو آسانی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ نسخے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے براہ راست ان کی مقامی فارمیسیوں کو بھیجے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر، طبی نسخوں کے ضروری فرق کے باوجود، دنیا بھر میں نسخے ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں: ’’مریضوں کو مناسب طبی علاج حاصل کرنے کےلیے واضح ہدایات فراہم کرنا‘‘۔
کیا یہ مقصد پاکستان کے ڈاکٹرز اور صحت عامہ کے ارباب اختیار کا نہیں بن سکتا؟
ڈاکٹر خواتین و حضرات نے جس طرح اپنا تشخیصی وقت کم اور اس کے اخراجات بڑھا دیے ہیں، اس کا ہی کچھ حق سمجھ کر دواؤں کے نسخوں کی بہتری کےلیے بھی کچھ اقدامات عوام کی ناگزیر ضرورت ہے۔ انھیں معموں والی ہاتھ کی لکھائی کے بجائے واضح اردو اور انگریزی میں بلاک لیٹرز میں یا کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ دوا کی خوراک اور دورانیہ نیز مریض کی صحت (ہیلتھ ہسٹری) کی بھی مختصر وضاحت موجود ہو۔ اور سب سے اہم یہ کہ میڈیکل اسٹوروں پر کوالیفائیڈ فارماسسٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔
مریضوں کے ساتھ اپنی مشاورت اور معاوضے کو اہم سمجھنے والے معالجین کےلیے مریضوں کے وقت، پیسے اور زندگی کو بھی اتنی ہی اہمیت کی ضرورت ہے۔
وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَـمِيْعًا ۚ
’’اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی‘‘۔ (سورۃ المائدہ، آیت 32)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link