[ad_1]
ہم ایک ایسے دیس میں رہتے ہیں جہاں ٹیکسز تو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں مگر یہاں کے شہری پیرس سے زیادہ مہنگا دودھ، امریکا سے زیادہ مہنگی بجلی، تائیوان کے مقابلے میں مہنگا پٹرول، زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم بھارت سے بھی مہنگی خرید رہے ہیں۔ حیران کن طور پر یہاں کے شہریوں کی تنخواہیں ایشیا میں سب سے زیادہ کم ہیں۔
حکومت نے بجٹ پیش کیا تو عوام کی رہی سہی کسر بھی نکل گئی، کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پٹرولیم لیوی میں اضافہ، گیس اور بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ سیلری کلاس پر ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔ لاہور شہر کے مختلف حصوں میں عام افراد سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، اس وقت عوام کے اندر ایک لاوا ابل رہا ہے۔ مرد و خواتین، بچے اور بزرگ سبھی ملکی حالات کو لے کر شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ عوام کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔
حکومت میں موجود افراد عہدوں کے جھگڑوں میں مصروف، اپوزیشن فارم 45 اور فارم 47 کے جھملیوں میں پھنسی ہوئی، بانی تحریک انصاف جیل میں بند جبکہ پی ٹی آئی کارکنان بانی کی رہائی میں تاخیر پر اپنی ہی قیادت سے نالاں ہیں۔ حکومت کے خلاف نفرت ایک آتش فشاں کی مانند لوگوں کے دلوں میں موجود ہے مگر اس بے سمت آگ کو راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں جماعت اسلامی کی جانب سے دھرنے کا اعلان عوامی غیظ و غضب کو ایک احتجاجی تحریک میں بدلنے کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے 12 جولائی کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب یہ دھرنا عاشورہ کے پیش نظر 26 جولائی تک موخر کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی ایک روزہ احتجاج کر ے گی یا دھرنا طویل ہوگا؟ دھرنے کے بنیادی مطالبات کیا ہوں گے اور کون سے مطالبات قابل عمل ہوسکتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کے دھرنے سے حکومت کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ سوال یہ کہ حکومت دھرنے کو روکنے کےلیے کیا اقدامات کرسکتی ہے؟ اگر جماعت اسلامی طویل دھرنا دیتی ہے تو اس کےلیے لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟ کیا دھرنے میں عوام کو شامل کرنے میں جماعت اسلامی کامیاب ہوسکتی ہے؟ جماعت اسلامی کے مطالبات ہیں ’سستی بجلی کےلیے آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے منسوخ کیے جائیں، اعلیٰ سرکاری اور حکومتی عہدیداران کو دی جانے والا ریلیف ختم کیا جائے، تنخواہ دار طبقے کے بجائے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں پر ٹیکس لگایا جائے، برین ڈرین روکنے کےلیے نوجوانوں کو ملک میں مواقع فراہم کیے جائیں‘۔
جماعت اسلامی کے ان مطالبات پر عملدرآمد بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ اکثر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے 2036 تک ہیں، جبکہ چند ہفتے قبل حکومت نے چند آئی پی پیز کے معاہدوں کی مزید 10 سال کےلیے تجدید بھی کردی ہے۔ وزیراعظم نے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو تین ماہ تک ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی مکمل ریلیف کا مطالبہ کر رہی ہے، جوکہ بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
سرکاری عہدیداران اور حکومتی ممبران کے ریلیف میں خاتمہ تو درکنار حکومت نے تو حال ہی میں انہیں مزید نواز دیا ہے۔ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں پر ٹیکس کون لگائے گا؟ کیونکہ ان میں سے اکثریت حکومت میں ہیں یا حکومتی جماعتوں کے مفادات ان سے وابستہ ہیں۔ رہی بات برین ڈرین کو روکنے کی تو جب ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی، صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوں گے؟
یعنی جماعت اسلامی ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لے تو حکومت ان کے مطالبات قبول نہیں کرے گی جبکہ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ وہ مطالبات کی منظوری تک دھرنے سے نہیں اٹھیں گے۔ اس کے لیے وہ ملک بھر سے ایک ساتھ کارکنان کو دھرنے میں لے جانے کے بجائے مختلف اوقات میں مختلف اضلاع کے کارکنان کو دھرنے میں بلا رہی ہے، یعنی تین تین دن کےلیے چاروں صوبوں کے ایک ایک ڈویژن سے کارکنان شریک ہوں گے۔ اس پالیسی سے محسوس ہورہا ہے کہ اس بار جماعت اسلامی طویل دھرنا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ڈی چوک میں میلہ کافی روز تک لگنے کے امکانات ہیں۔ جماعت اسلامی نے دھرنے کے انتظام کےلیے 100 کمیٹیاں بنائی ہیں جن میں 3 ہزار رضاکار انتظامات کررہے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک عرصے سے پاپولر سیاست سے پیچھے ہٹ رہی تھی، حافظ نعیم کے امیر بننے کے بعد امکانات ہیں کہ ایک بار پھر جماعت پاپولر سیاست کا راستہ اختیار کرکے عام پاکستانیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے لگائے گئے کیمپس میں بڑی تعداد میں عام شہری معلومات حاصل کرنے آرہے ہیں۔ محسوس ہورہا ہے کہ حافظ نعیم قوم کےلیے ایک نبض شناس کے طور پر سامنے آئےہیں۔ حالیہ عوامی جذبات کی اگر درست ترجمانی ہوگئی تو جماعت اسلامی اپنا کھویا مقام بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
اس وقت ملکی سیاست میں ایک خلا پایا جارہا ہے، کوئی بھی سیاسی جماعت عوامی حقوق کی بات نہیں کر رہی۔ عوام کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔ عوام کسی بھی سیاسی وابستگی کے بغیر اس کا ساتھ دیں گے۔ اسلام آباد دھرنا جماعت اسلامی کی بقا کا ایک امتحان بھی ہے کیونکہ دھرنے کی ناکامی اور کامیابی ہی جماعت اسلامی اور حافظ نعیم کا مستقبل طے کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link