[ad_1]
خطۂ فارس کو اب یقیناً سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، کیوں کہ اس کے دعوے صرف دعوے ہی ثابت ہورہے ہیں۔ اور کچھ بعید نہیں کہ یہی صورتحال رہی تو جو رہی سہی کسر ہے وہ بھی جاتی رہے۔ اور ایسا ہونا صرف قیاس بھی نہیں، کیوں کہ عملی طور پر جائزہ لیجیے تو خطۂ فارس اس وقت سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر پا رہا۔ بس کچھ عزت پراکسی وار کی مدد سے باقی ہے۔ جسے سنبھالنا ضروری ہے۔
اس سے پہلے بھی اہم شخصیات نشانہ بنتی رہی ہیں اور یہ نشانہ بھی اپنے مضبوط گڑھ اور اپنی ریاست کی حدوں میں بنتی رہی ہیں۔ سلیمانی کا نشانہ بننا ہو یا دیگر اہم شخصیات، ہر لحاظ سے ناکامی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر آپ کو دشمن آپ کے گھر میں عملی طور پر گھس کر مار رہا ہے تو آپ صرف بیانات پر گزارا نہیں کرسکتے۔
میاں بیوی کا ایک قصہ اکثر لطیفے کی صورت سننے کو ملتا ہے کہ میاں کے ہر تھپڑ پر بیوی بس اتنا غصے سے کہتی ہے کہ ’’اب کے مار کے دکھاؤ‘‘، المیہ یہ نہ ہو کہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہو۔ اور مقابلہ صرف زبانی کلامی ہی باقی رہ جائے۔ جس قدر قد آور شخصیت اپنے ہی دارالحکومت میں نشانہ بنی ہےـ (وہ بھی نئے صدر کی تقریب حلف برداری سے صرف ایک دن قبل) تو یقینی طور پر ایک امتحان کی صورت ہے کہ جو آپ کی جنگ بھی کسی نہ کسی حد تک لڑ رہے ہیں، ان کو تحفظ اگر آپ کی سرزمین پر بھی نہیں مل رہا ہے تو عملی چپقلش میں جہاں آپ کا نقصان ہوگا وہاں پراکسی وار میں بھی آپ کو ایسا نقصان ہورہا ہے جس کا آپ نے سوچا بھی نہ ہوگا۔
نظام، ادارے، ایجنسیاں، کاش صرف زبانی جمع خرچ پر دنیا میں اپنا وقار قائم کرسکتیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ اور اس کےلیے پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور آلات، تکنیک، مسائل سے نمٹنے کا رویہ، اور اس سے جڑے دیگر عوامل بہت اہم ہوتے ہیں۔ خطۂ فارس کے لیے جو سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ہے وہ قدامت پسندی اور اصلاح پسندی کی آپس کی چپقلش ہے۔ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ترقی کی نئی جہتیں متعارف ہورہی ہیں۔ قدیم نظام دفاع کی جگہ اب مصنوعی ذہانت لے رہی ہے۔ رنگ، نسل، لسانیت، گروہی، علاقائی پہچان وغیرہ اہم ضرور ہیں لیکن موجودہ عالمی حالات میں یہ ثانوی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اب دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں یعنی گلوبل ویلیج سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اور اس دور میں آپ اگر چاہیں کہ صرف چہرے پہ شکنیں ڈالے، غصے سے معاملات حل کرلیں گے تو ایسا ممکن نہیں رہا۔ ایک جدید گاؤں سے کٹ کر اگر آپ یہ تصور کرلیں کہ پہاڑ پر رہ کر آپ وہی مقام پا لیں گے جو ایک جدید گاؤں کی تمام اکائیاں پا رہی ہیں تو یہ ناممکن ہے۔
آپ کو جدیدیت کی طرف رجحان رکھتے ہوئے اپنا انتظامی و دفاعی ڈھانچہ عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو نہ آپ کے ملک میں آپ کا صدر محفوظ ہے اور نہ ہی اہم مہمان شخصیت، کہ جس کے وجود سے پورے خطۂ عرب میں جاری مزاحمت کی تحریک جڑی ہوئی ہے۔ حب الوطنی کارڈ بھی زیادہ دیر اب چلنا محال ہورہا ہے ہر خطے کےلیے۔ آپ ملک میں قدامت پسندی کے رجحانات کے تحت جب معاملات چلائیں گے تو آپ کے ذہین دماغ چھلنی کی طرف رخصت ہوتے جائیں گے۔
اصلاح پسند نئے صدر کےلیے پہلا ہی دن ہنگامہ خیز اس لیے ہے کہ یوں کہہ لیجیے کہ ’’سر منڈواتے ہی اولے پڑے‘‘ کے مصداق اقتدار سنبھالتے ہی ایک آفت نے آن گھیرا۔ ان کے بارے میں اندازے بہت مثبت ہیں۔ لیکن اقتدار کی کرسی صرف اندازوں پر چلنے سے رہی۔ ان کے سامنے دو آفتیں بانہیں پھیلائے کھڑی ہیں جو انہیں جلد دبوچ سکتی ہیں۔ پہلی عالمی طاقتوں سے بہتری پہ معاملات استوار کرتے ہوئے ملک کی معاشی صورتحال بہتر بنانا اور دوسری اہم مزاحمتی رہنما کے اپنے دارالحکومت جیسی محفوظ جگہ پر نشانہ بن جانے کے بعد اس معاملے پر رویے کا اظہار۔ اصلاح پسند صدر مسعود کےلیے یہ ایک زندگی کا اور اقتدار کا ٹرننگ پوائنٹ اس لیے بھی ہے کہ وہ قدامت پسندی کی مخالف سمت میں چلنے والے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ اور اس حالیہ واقعے پر وہ اگر رویہ نرم رکھتے ہیں تو ملک کے اندر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اور اگر اقتدار کے شروع میں ہی رویہ اس معاملے پر سخت اپناتے ہیں تو عالمی طاقتیں مزید پابندیاں لگاسکتی ہیں۔
مزاحمتی رہنما کا خطۂ فارس میں نشانہ بننا، نئے صدر کےلیے ایسا کڑا امتحان ہے کہ اگر وہ اس سے سرخرو ہوجاتے ہیں تو نہ صرف ملک میں ان کا وقار بڑھے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی وہ ایک مضبوط رہنما کے طور پر ابھریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link