[ad_1]
کراچی کی قدیم بستی لیاقت آباد المعروف لالو کھیت کی آخری تنگ گلیاں، چھوٹے چھوٹے ایک کمرے والے گھروں میں ابھی بھی اِکا دُکا اڈوں پر شرارے، غرارے اور عروسی ملبوسات تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔
کام اختتام پر ہے، کیونکہ شادیوں کا سیزن اپنے عروج پر ہے، مگر بشریٰ کے گھر میں کام کی امید ماند ہے۔ پورے پورے جوڑوں پر سلما، دبکا، کورا، آری، مروڑی، تلا اور دھاگے کا کام کرنے والی یہ خاتون کام کی غیریقینی صورت حال کے باعث اب فینسی چپلوں کے اپر یا پھر ہار بندوں اور کنگنوں پر باریک چمک اور نگ لگانے کے متبادل روزگار کی جانب بڑھ چکی ہے۔
مہنگائی، مال کی بڑھتی قیمتوں، مشینی کام کی آمد، دکان داروں کے نخروں اور بروقت محنتانہ ادا نہ ہونے پر اس علاقے میں قائم کئی کارخانوں پر اب تالے پڑے ہیں۔ کراچی کے ہر ضلع میں ہاتھ سے اڈوں پر کام کرنے والی بے شمار خواتین موجود ہیں، لانڈھی بابر مارکیٹ ہو یا اورنگی ٹاؤن بنارس کالونی، عزیز آباد جیسے متوسط آمدن رکھنے والے علاقے میں بھی ایسے لاتعداد گھرانے موجود تھے جہاں گھر کی بیٹیاں صبح ناشتے کے بعد کام کرنے بیٹھتیں تو رات گئے تک کام کرتی رہتیں۔ یہ سب ہوم بیسڈ ورکرز کے زمرے میں آتی ہیں۔
سندھ حکومت نے سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2018 بھی نافذ کیا ہے جس کے تحت گھروں میں کام کرنے والے افراد شامل ہیں۔ غیر رسمی یا غیر منظم شعبے میں جو اپنے گھروں کے اندر یا آس پاس معاوضہ کا کام کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ سندھ میں تقریباً 50 لاکھ ہوم بیسڈ ورکرز مصروف کار ہیں، اس لیے ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ اجتماعی طور پر اتحاد کرنے اور سودے بازی کرنے، سماجی تحفظ، اور تنازعات تک رسائی کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔
بشریٰ سے پہلے اس کی بڑی بہن نے اپنے گھر میں اڈے پر کرنے والے کام کی شروعات کی۔ والد کی بیماری کی وجہ سے گیارہ سال تک والدہ کے ساتھ کام کرکے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی۔ ان کے مطابق شادی کے ملبوسات اور عروسی جوڑے بننے کےلیے ٹھیکیدار گھر پر دے جایا کرتا تھا۔ کام کی ڈیمانڈ کے مطابق وقت مقررہ پر کام دیا جانا ضروری تھا۔ میری چھوٹی بہنیں نگوں اور موتیوں کی ٹکائی میں میرا ساتھ دیتی تھی۔ ہمارے ابا رنگ کا کام کرتے تھے اور زیادہ تر بیمار رہتے تھے۔
نیشنل آرگنائزیشن فار ورکنگ کمیونٹیز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فرحت پروین کے مطابق ہوم بیسڈ کام ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ہورہا تھا، اب یہ کام فیکٹریوں نے کروانا شروع کردیا۔ پہلے کاٹیج انڈسٹری میں کام ہوتا تھا، گھر کے اندر سلائی کڑھائی، کھانے پینے کی چیزوں کی پیکنگ یا کھانا بنا کر بازار میں بیچنا، مگر جب یہ کام فیکٹریوں کےلیے ہونا شروع ہوگیا تو اس میں تیزی آئی۔ ایک فیکٹری ایک خاتون سے اگر 10 روپے میں ایک چیز بنواتی ہے، وہ فیکٹری گھر میں کام کرنے والوں سے تین روپے میں کام لیتی ہے۔ فیکٹری ورکر کے مقابلے میں کم از کم سات آٹھ فیصد کم تنخواہ ملتی ہے۔
ٹیکنالوجی کا بھی بہت بڑا کردار ہے اور اب ایسی مشینیں آگئی ہیں جس میں اگر پروگرام سیٹ کردیا جائے تو وہ خودکار طریقے سے کام کرلیتی ہیں۔ کام دلانے والے ٹھیکیدار بنیادی طور پر فیکٹری ورکر ہی ہوتے ہیں، سپروائزرز ہوتے ہیں یا فیکٹری کے سینئر لوگ ہوتے ہیں، جو کہ منیجر سے نیچے کے لیول کے ہوتے ہیں اور عموماً وہ انہی گلی محلوں میں ہوتے ہیں، رہائش بھی ان کی وہیں ہوتی ہے جہاں ورکرز ہوں۔
97 کے کنونشن کے مطابق ہوم بیسڈ ورکرز کو فیکٹری ورکرز کے برابر حقوق دینے کی بات کی گئی مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس کا نفاذ دکھائی نہیں دیتا۔ پورے پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کےلیے صوبائی لاز بنے ہوئے ہیں لیکن یہ سب انتہائی کمزور اور غیر موثر ہیں۔ سندھ حکومت نے سب سے پہلے یہ قانون بنایا جو بدقسمتی سے بہت ہی کمزور ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایمپلائرز، ورکرز اور گورنمنٹ سب کا یہ خیال تھا کہ اس قانون کے اوپر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا سوشل پروٹیکشن کا دائرہ کار وسیع کیے بغیر یہ قانون نافذ نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون پاس ہوچکا ہے لیکن اس کا نتیجہ مایوس کن ہے۔ یا تو ہم اس قانون کو بہتر بنائیں یا کچھ اور عملی اقدامات کریں کیوں کہ ہوم بیسڈ ورکرز کا استحصال عام ہے۔
لیاقت آباد کے محلے میں لڑکیوں کو کام سکھانے اور مارکیٹ سے کام لاکر دینے والے ٹھیکیدار عظیم بھائی بھی حالات کی گردش کا شکار ہیں۔ ایک چھوٹے کمرے اور صحن پر مشتمل چالٰیس گز کے گھر کے رہائشی عظیم بھائی کی بیوی اور دو بچیاں بھی ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ اچھے وقتوں میں آٹھ نو لڑکیاں اور اتنے ہی لڑکے ان کے گھر کام سیکھنے اور کام کرنے آیا کرتے تھے۔ ہفتے میں پچھتر ہزار روپے کا کام بنا کرتا تھا۔ دن رات کام ہوتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی اور دیگر عوامل کے باعث اپنا خرچہ نکالنا مشکل ہورہا ہے۔ ان کے مطابق ہم جو کام بناتے ہیں دکان دار اسے آدھی قیمت میں لیتا ہے۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ توڑ توڑ کر پیسے دیے جاتے ہیں۔ لاکھ کا کام کرو تو پانچ پانچ ہزار کی قسط میں ادائیگی کرتے ہیں۔ ماہِ رمضان میں ایک لاکھ اسی ہزار کی مالیت کا شرارہ بنایا مگر ادائیگی اسی ہزار کی ہوئی۔ ہمارا کسی حکومتی ادارے میں اندراج نہیں اور نہ ہی کسی ہنرمند ادارے کی طرف رسائی ہے۔
ہوم نیٹ پاکستان کی ام لیلیٰ کے مطابق 2002 میں فیڈرل لیبر پالیسی میں فارمل اکانومی کی بات ہوئی اور ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی ورکرز فورس کا حصہ مانا گیا۔ ہم نے فارم بھرنے میں خواتین کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے اپنی خواتین کو تربیت فراہم کی تاکہ وہ فارم کو آسانی سے سمجھا سکیں کہ رجسٹریشن کا عمل کیا ہے۔ آئی سی میٹریل کی مدد سے اردو اور سندھی دونوں زبانوں میں مکمل معلومات فراہم کی گئیں۔ کراچی کی رجسٹریشن ابھی شروع نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں حکومت کے تاخیری حربے ہمیشہ کی طرح موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اتنے لوگوں کو رجسٹر کرکے آگے کیا کرے گی؟ سوشل سیکیورٹی کا میکنزم بھی ابھی فعال نہیں ہوا۔ رجسٹریشن کر بھی لیں گے تو بات سیسی کے ہاں پھنسی ہوئی ہے۔ وہاں پر ڈس ایگریمنٹ ابھی چل رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی رجسٹریشن کے بعد حکومت ان کےلیے ایک لائحہ عمل ابھی تک تیار نہیں کرپائی کہ وہ کیسے سوشل سیکیورٹی حاصل کرسکیں گے۔
شادی شدہ بشرٰی اکیلے ہاتھ سے کرے بھی تو کیا، لاتعداد مسائل نے اس کا دامن آ گھیرا ہے۔ کرایے کا گھر، گھریلو ناچاقی، ناکافی غذائیت کا شکار اس کے دو بچے اب بھوکے پیٹ سونے کے عادی ہیں۔ بہن کے ساتھ بیوٹی پارلر میں جز وقتی کام کے ساتھ بہت تگ و دو کے بعد اب پولیو ورکر کی عارضی نوکری ملی ہے۔ ہنرمند ہونے کے باوجود وہ ملک کے لیبر لاز اور اس سے مستفید ہونے سے لاعلم ہے۔ اسے پوری امید ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے قانون کے تحت اسے بھی فیکٹری ورکرز کی طرح ماہانہ مشاہرہ، ای او بی آئی اور پنشن کی سہولیات میسر ہوں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link