[ad_1]
جمہوریت کیا ہے؟ جمہوری رویے کیا ہیں؟ جمہوریت کی ترقی کیسے ممکن ہے؟ جمہوری معاشروں میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کیسے ممکن ہوتی ہے؟ غیر جمہوری معاشروں میں عوامی مفادات کو نقصان کیسے پہنچتا ہے؟ آمریت میں کس طرح اصول و ضوابط پامال ہوسکتے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر ہر روز سیاسی رہنماؤں کے بیانات کے ساتھ ساتھ سیاسی امور کے ماہر افراد لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ ہماری نظروں کے سامنے سے ہزاروں الفاظ ان سوالات کو لیے ہوئے گزرتے ہیں۔ ہمارے کان پورے دن میں سیکڑوں مرتبہ ان الفاظ کی گردان سنتے ہیں۔
جمہوریت ہو یا جمہوری رویے، ہم حقیقی معنوں میں عملی طور پر اس سے نہ صرف کوسوں دور کھڑے ہیں بلکہ یہ دوری ہی ہمیں پسند ہے۔ آمریت ہو یا آمرانہ رویے، اصل میں ہماری پسند ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہی اپنی سیاسی و سماجی روش پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
جمہوریت اور آمریت میں فرق کےلیے ہم ہمیشہ سیاسی طور پر کسی سیاسی جماعت کے انتخابات میں فتح حاصل کرکے اقتدار کو سنبھالنے یا پھر فرد واحد کے اقتدار پر قابض ہوجانے کو دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ بغور جائزہ لیں تو ایسا ہرگز نہیں۔ جمہوریت یا آمریت کا تعلق کسی ادارے، جماعت یا فرد سے نہیں۔ اور نہ ہی اقتدار ان توجیہات کا مرکز ہے۔ بنیادی طور پر جمہوریت یا آمریت ہمارے رویوں سے جڑی ہوتی ہے۔
ہم ہمیشہ آمریت کو باوردی ہی سمجھتے ہیں لیکن ہم اپنے ارد گرد آمرانہ لب و لہجے اور کردار کو کوٹ پینٹ اور اچکن پہنے افراد میں بھی باآسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک انتہائی اہم مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی حامی سیاسی سوچ کھڑی ہے (اپنی دانست میں)، اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ناقد صف بندی کیے ہوئے ہیں (اپنی دانست میں، کیوں کہ دونوں فریق نہ تو جمہوری رویے رکھتے ہیں اور نہ ہی عمل)۔ حیران کن طور پر یہ دونوں فکری مغالطے ہیں۔ دونوں ہی آمرانہ طرز عمل رکھتے ہیں۔
اس وقت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کے حمام میں مستی میں ہیں، جب کہ تحریکِ انصاف خود کو واحد اپوزیشن سمجھتے ہوئے تنقید کے نشتر برسا رہی ہے۔ دونوں طرف جمہوریت کا دور دور تک گزر نہیں۔ اگر جمہوریت ہوتی تو آج نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں تمام عہدوں کو اپنے ہی گھر کی باندی نہ بنا لیا جاتا۔ اسی طرح تحریک انصاف میں طاقت کا سرچشمہ ایک کپتان کی ذات نہ بن چکی ہوتی۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف کے جمہوری وزیراعظم نے اقتدار چلانے کےلیے آمرانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو دوسری جانب اب نواز لیگ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے آمریت کی خوب خدمت کر رہی ہے۔ ہم آمروں کو مطلق العنان حاکم ثابت کرتے رہے ہیں۔ لیکن دور اندیشی سے سمجھیے تو ہماری سیاسی جماعتیں مطلق العنان آمریت کی تعریف پر زیادہ پوری اترنے لگی ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد جلسے کا شور و غوغا ہوا۔ ایک صوبے کے انتظامی سربراہ کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی اس پر پارٹی کے اندر سے ایک جمہوری سوچ نے سر ابھارنا چاہا اور اس تقریر کی نفی کرنی چاہی تو پارٹی کے اندر کے آمرانہ مزاج نے اس جمہوری سوچ کو کچل کر رکھ دیا۔ اگر واقعی سیاسی جماعت جمہوری سوچ رکھتی تو مخالفانہ سوچ اور تنقیدی بیانات کو بھی برابر اہمیت دی جاتی۔ لیکن ایک رہنما کے بیان کو ہی پوری پارٹی نے اپنی سوچ بنا لیا۔ یعنی ایک مخصوص حاوی سوچ کے آمرانہ طرزِ عمل نے پارٹی کے اندر غلط کو غلط کہنے والے افراد کی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ تو پھر آمریت کیا ہے؟ ایسا ہی طرزِ عمل نواز لیگ کی جانب یا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی جانب ہے۔ دلائل اور اختلافات کو سیاسی پارٹیاں اپنی موت سمجھنے لگی ہیں۔ تحریک انصاف ہو یا نواز لیگ، پیپلز پارٹی ہو یا ج ک م لیگ، سب ہی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ مذہبی جماعتیں ہوں یا لسانی فکر، سب ہی آمرانہ طرز عمل رکھتے ہیں اور جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جماعتیں اپنے اندر موجود دلیل پر اختلاف کرنے والی آواز تک پسند نہیں کرتیں۔
مطلق العنان آمرانہ رویوں کا مطالعہ کرنا ہو تو اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس تعریف پر پورا اترتی ہیں کہ جہاں فیصلے فرد واحد لیتے ہیں، سوچ مخصوص خاندانوں کی ہے، عملی سطح پر اقربا پروری زوروں پر ہے، پارٹیوں کے اندر مخالفانہ اور تنقیدی سوچ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں میں مخالف سوچ کو جمہوری روایات سمجھا گیا اس وقت حقیقی معنوں میں آمریت اور جمہوریت میں فرق ممکن ہوگا، ورنہ نیرو چین کی بانسری بجاتا رہے گا اور روم جلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link