52

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

[ad_1]

ربیع الاوّل کا ماہِ مبارک، اس عظیم الشان انسانؐ کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا۔ جس کی اطاعت میں ہر فرد، قوم و ملت اور تمام بنی نوع انسان کےلیے بِلا امتیاز سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہ ماہ ہر سال حیاتِ مصطفیؐ کی ایمان افروز یادیں لیے ہوئے آتا ہے۔ عاشقانِ رسولؐ اپنے اپنے انداز سے اس بہارِ رحمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور اس یاد سے گویا آپؐ سے محبت و عقیدت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یاد یا تذکرۂ رسولؐ کا طریقہ دورِ نبویؐ سے لے کر آج کے زمانے تک بتدریج بدلا۔ مگر تذکرۂ رسولؐ نہیں صرف طرز ہی بدلے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کی محفل میں حضورؐ کے ذکر کی ایک آیت ہی پڑھ دینا کافی تھا اور سارا قرآن ان کے سامنے روشن ہوجاتا تھا۔ پھر اس آئینے میں نبیؐ کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے اور دیگر معمولات کے تمام ہی انداز ان کی آنکھوں کے سامنے متحرک ہوجاتے تھے۔ یہ چیز آپؐ کے عقیدت مندوں کےلیے ایک جانب تذکرۂ رسولؐ تھا تو دوسری طرف آپؐ کی فرماں برداری کےلیے کامل ترغیب بھی۔ لیکن پھر بعد کے آنے والے، جو آپؐ کی زیارت اور صحبت سے فیضیاب نہ تھے، ان کے سامنے تذکرۂ رسولؐ کا حق ادا نہیں ہوسکتا تھا، جب تک کہ آپؐ کی باتیں پوری تفصیل کے ساتھ بیان نہ کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مُحبّانِ رسولؐ نے اپنے محبوبؐ کی ایک ایک بات محفوظ کی۔ آپ کی ہر ہر ادا، انداز اور حلیۂ مبارک تک نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن پاک میں انبیاء و مرسلین کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خود بار بار کیا ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ:

’’ان کو یاد کرو اور دوسروں کو یاد دلاؤ اور جو کچھ تم نے ان سے پایا ہے وہ دوسروں تک پہنچاؤ۔‘‘

یعنی تذکرے اور یاد کی غرض ان سے حاصل کردہ نیکی کے کاموں کو آگے بڑھانا یا فروغ دینا بتایا گیا۔ چنانچہ حجۃ الوادع کے موقع پر حضورؐ نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مخاطب فرما کر ہدایت دی تو اختتام پر فرمایا:

’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان ہدایات کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘

اس حُکمِ نبویؐ کی تعمیل صحابۂ کرامؓ نے جس اہتمام اور عشقِ رسولؐ سے سرشار ہو کر کی، اس کی مثال تاقیامت ممکن نہیں۔ صحابۂ کرامؓ کے ابتدائی زمانے میں روایتِ احادیث کا طریقہ ہی ابلاغِ حق، امر بالمعروف و نہی عنِ المنکر اور تذکرۂ رسولؐ تھا۔ یہی تاریخِ اسلام بھی ہے اور اسوۂ حسنہ بھی۔ لہٰذا صحابہؓ و صحابیاتؓ کی محفلوں میں حضورؐ کی تعلیم اور سیرت النبیؐ کے بیان کو دعوت و تربیت کا اہم کام سمجھا جاتا تھا۔ عہدِ رسالت کے بعد نبی کریمؐ کی زیارت و صحبت سے محروم نئے آنے والے مسلمان اسوۂ حسنہ اور دعوتِ حق کے متلاشی ہوئے۔ صحابہ کرامؓ نے حضورؐ کی ذات اقدسؐ کو مرکزی حیثیت سے پیشِ نظر رکھ کر آپؐ کا اسوہ، طریقۂ تعلیم اور دعوتِ دین کے ابلاغ کا کام جس قوت کے ساتھ شروع کیا وہ بِلاشبہ رفع ذکرؐ اور حبِ رسولؐ کی بہترین مثال ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ نکلا کہ بات تقریر سے تحریر تک پہنچی۔ یہ مرحلہ (بَلِغُوعنیِ) ’پہنچاؤ مجھ سے‘‘ کے حکم کی پیروی میں عشقِ رسولؐ سے سرشاری اور جوابدہی کے احساس کے ساتھ طے ہوا۔

اس طرح ایک طرف مستند تفاسیر سامنے آئیں تو دوسری جانب احادیث کے مستند مجموعے ترتیب دیے گئے۔ پھر ان کی مدد سے اسلامی اصول و قوانین، ’’فقہ‘‘ کی صورت میں مرتب ہوئے۔ بلاشبہ آج دنیا کے انسانوں کا اس دینِ رحمت کی طرف لپکنا اور مسلمانوں کا اپنے دین کو آسانی کے ساتھ پھیلانا، ان ہی اصحابؓ کے عشقِ رسولؐ کا ثمرہ ہے۔

تذکرۂ رسول کی ان بے پایاں مساعی جمیلہ کے باوجود، ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اُسوۂ حسنہ جیسا مؤثرترین ذریعۂ علم و اصلاح غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مشترکہ پاک وہند کی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ کہیں کارِ نبوّت اور منصبِ رسالت سے متعلق خودساختہ تصورات قائم کرکے اُسوۂ رسولؐ کے ایک بڑے حصے کو قابلِ اتّباع نہ سمجھا گیا۔ کہیں آپؐ کی تعلیمات میں اسرار و رموز کا عقیدہ سامنے لایا گیا اور طریقت کے نام پر تعلیماتِ نبویؐ کو عام لوگوں کےلیے ادھورا کیا گیا۔ کہیں آپؐ کے طریقوں کو زمانوں کے فرق سے متصادم ظاہر کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ پھر ایسے حالات ہوئے کہ عاشقانِ رسولؐ اپنے نبی پاکٔ کے ساتھ اندھی بہری اور جذباتی عقیدت میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ یوں وہ مُتعیّن اوقات میں مخصوص طریقوں پر عقیدت و محبت کا اظہار بلکہ پرچار کرکے اپنی دانست میں گویا عشقِ رسولؐ کے ادائے حق سے خود کو سبکدوش کرلیتے ہیں۔

افسوس! آج ہمارے معاشرے میں نبیؐ سے محبت اور اظہارِ محبت کی زیادہ تر یہی روایت عام ہورہی ہے۔ اس روایت کے قیام، اس کی تقویت، اس کو جاری و ساری رکھنے اور اس کی رونقیں بڑھانے میں ایک جانب کم علم مولویوں کا اہم کردار ہے تو دوسری طرف اہلِ علم طبقے کا سخت تنقیدی رویہ اور ناکافی ابلاغِ دین ہے۔ حُبِ رسولؐ کے سلسلے میں علامہ اقبال جذبۂ عمل قائم رکھنے کے تین طریقے بتاتے ہیں:

پہلا طریقہ درود و سلام ہے، جو مسلمان کی زندگی کا جُزوِ لاینفک ہے۔

دوسرا طریق اجتماعی ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی حضور آقائے دوجہاںؐ کے سوانح حیات بیان کرے۔

تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یادِ رسولؐ اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہوجائے۔ یعنی آج سے چودہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرور کائناتؐ کے وجود مقدس سے پیدا ہوتی تھی وہ آج ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔
(آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید، ص306. (جلسۂ میلادُالنّبیؐ)

آج کی جدید عالمگیریت میں ہم اور آپ سمیت دو ارب کے قریب عاشقین رسولؐ موجود ہیں۔ نبیؐ سے محبت و اطاعت کو اپنے ایمان کی تکمیل جانتے ہیں۔ عقیدت و احترام سے آپؐ کی کامل سلامتی کے ذریعے گویا دل و جان سے آپؐ کا ساتھ دینے، آپؐ کی مخالفت سے بچنے اور سچی فرماں برداری کا اظہار کرتے ہیں۔ آپؐ کی سنت اور اسوہ پر ثواب کی نیت سے عمل بھی کرتے ہیں۔ مگر عام طور پر اس حد تک کہ آپؐ جیسا لباس، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب اختیار کرلیتے ہیں۔ یقیناً اپنے اخلاق آپؐ کے رنگ میں رنگنا باعث سعادت ہے۔ لیکن اگر ہم آپؐ کی سب سے بڑی اور اہم سنت دعوتِ دین کو نہ اپنا سکیں تو آپؐ سے محبت اور آپؐ کی سلامتی کے حقیقی دعویدار بن سکتے ہیں؟

آپؐ اپنے رب کے رسول تھے۔ اسی رب کی طرف سے اس کے بندوں کو دعوت دینا ہی آپؐ کا مقصدِ زندگی تھا۔ غارِ حرا میں وحی اور اولین ہدایت سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک آپؐ کارِ دعوت و رسالت کی متحرک تصویر بنے رہے۔ ہر ہر لمحہ یہی فکر، اسی کی دھن، اسی کا احساس، اسی کےلیے تمام تر تعلقات و معاملات، اسی کےلیے ہر جدوجہد کہ رب کی دعوت اس کے بندوں تک بلا کم و کاست پہنچ جائے۔ پھر اس عظیم مشن کے مقابلے میں مشکلات پر صبر کی ایک داستان سامنے آتی ہے۔

قریبی عزیز و اقارب کی بے وفائی… شہرِ عزیز کی گلیوں میں رسوائی… کوہِ صفا سے دلیرانہ دعوتی پکار… عکاظ کے میلوں میں دعوتی گشت… شعب ابی طالب کی سختیاں… طائف کی پتھریلی وادی میں آبلہ پائی… بدر و حنین اور اُحد و حدیبیہ کے میدان کار زار میں ثابت قدمی… پھر اُمت کی بخشش کےلیے نالۂ نیم شب… کچھ بھی تو آپؐ کو اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹا سکا۔ یہ چند عنوانات دعوت و نصیحت اور صبر و استقلال کی ایک داستان ہے۔

آج آپؐ کی آمد کی خوشی میں ایک جانب عقیدت و محبت کا روز افزوں اور چکاچوند پرچار ہے، درود و سلام کے نذرانے کی رنگا رنگ پُرتکلّف محافل ہیں۔ دوسری طرف کشمیر، فلسطین، برما، شام، سنکیانگ، یمن اور دنیا ک بیشتر حصوں میں ظلم کے نظام تلے سسکتی دم توڑتی انسانیت ہے۔ ایک طرف کمزوروں کی آہ و فغاں ہے تو دوسری جانب طاقتوروں کی فرعونیت و چنگیزیت ہے۔

تازہ ترین کربناک منظر فرانس میں آپؐ کے توہین آمیز خاکے سرکاری عمارتوں پر آویزاں کرکے گویا عاشقانِ رسولؐ کے عشق کو آزمانے کی ایک اور کوشش۔ مسلمان جو آپؐ سے نسبت اور محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے اور فخر کرتے ہیں، اس شر پر تمام دنیا میں سراپا احتجاج ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، مسلمانوں کی عام ایمانی حالت کتنی ہی شکستہ رہی ہو، مگر وہ عشقِ نبیؐ سے ہمیشہ سرشار رہے۔

قرآن میں مسلمانوں کو دشمنوں کے حق میں بھی عدل و انصاف کی تعلیم ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ لِلّـٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8:5)

’’اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کےلیے کھڑے ہوجاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘

رسول اللہ کا تمام دعوتی مشن اسی قرآنی حکم کی عملی تفسیر ہے۔ اسلام، دشمنوں کے ساتھ امن و مفاہمت کے طرزِ عمل کی تاکید کرتا ہے کہ امن و مفاہمت کا فائدہ سب سے زیادہ اسلام اور اہلِ اسلام کو ہے۔ اس لیے کہ امن و مفاہمت کی فضا میں تبلیغِ دین کا وہ کام ہوسکتا ہے جو مسلمانوں کےلیے فرض ہے۔ دشمنی میں دونوں جانب کی اشتعال انگیزی میں حقیقت اور سچائی پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ دورِ رسالت کی مثالیں ہیں کہ آپؐ غیر مسلموں کی دشمنی کے جواب میں ہمیشہ امن و مفاہمت کے خواہشمند رہے۔

دس سالہ مکی دور، دعوت و تبلیغ کے جواب میں شدید مخالفت اور ایذا رسانیوں کا زمانہ ہے۔ مگر آپؐ کا طرزِ عمل صبر، درگزر، امید اور رجوع الی اللہ ہی رہا۔ آپؐ کو دی گئی ایذارسانیوں میں سخت ترین دن طائف کے تھے۔ جب اسلام کی دعوت کے جواب میں آپ کے ساتھ گستاخی اپنی انتہا پر تھی۔ آپ کے پیچھے اوباش جوانوں کو لگا دیا گیا جو آپ کو گالیاں دیتے رہے۔ اتنا پتھراؤ کیا کہ پورا جسمِ مبارک لہولہان اور جوتے خون سے بھر گئے۔ ایسے میں جبریل علیہ السلام نے طائف کے دونوں پہاڑوں کو باہم ملا کر آپ کے دشمنوں کو ہمیشہ کےلیے ختم کردینے کےلیے آپؐ کی اجازت چاہی۔ جواب میں آپ نے نہ صرف ان کہ ہلاکت و بربادی نہ چاہی بلکہ ان کے حق میں اللہ کے حضور دعا گو ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان ہی کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس تحمل امید اور دعا کا یہ نتیجہ نکلا کہ گیارہ سال بعد یہی اہلِ طائف دشمنی سے دستبردار ہوکر آپ کے جاں نثار بن گئے۔ مزید، ان ہی طائفیوں کی نسل سے عرب مجاہد محمد بن قاسم پیدا ہوئے جن کی غیرمسلموں کے ساتھ اسلامی رواداری کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اسلام داخل ہوا۔

ایک مرتبہ خباب بن ارتؓ خدمت نبویؐ میں حاضر ہوئے، آپؐ کعبہ کے سائے میں ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ خبابؐ نے مشرکین کے ہاتھوں سختیاں جھیلنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’کیوں نہ آپ اللہ سے دعا فرمائیں‘‘۔ یہ سن کر آپؐ اٹھ بیٹھے۔ آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؐ نے فرمایا کہ ’’جو لوگ تم سے پہلے تھے ان کے جسموں کے آروں سے دو ٹکڑے کیے گئے، لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ سختیاں بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھیں‘‘۔ پھر آپؐنے فرمایا کہ ’’اللہ اس امر کو (یعنی دین) کو مکمل کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب المناقب)

سیرت نبویؐ کے اس پہلو کا خلاصہ یہ ہے کہ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں۔ ’’یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی۔‘‘ (الذٰریٰت:55)

اس حکمت کا تقاضا ہے کہ عشقِ رسولؐ کی نعمت کو جذباتیت کے حوالے کرنے اور اسلام کو بدنام کرنے کے بجائے اس کا حق ادا کرنے کی فکر کی جائے۔ اس ضمن میں عالمی سفارتی قوانیں اور ان پر عمل درآمد کی حکمت عملیاں یقیناً ناگزیر ہیں۔ اصل کرنے کا کام سیرتِ رسولؐ کی آگہی اور کتبِ سیرت کے زیادہ سے زیادہ تراجم عام انسانوں کی عام دسترس میں پہنچایا جانا ہے۔ سب سے بڑھ کر آپ کے امتی کی حیثیت سے ہمارا اور آپ کا اسلامی کردار ہمارے عشقِ رسول کی گواہی اور کسوٹی ہے۔ گستاخی رسول کا اصل جواب ہمارے عشقِ رسولؐ کی سچائی ہے۔

پھر حیاتِ مبارکہؐ میں عرفات کا وہ میدان بھی ہمارے سامنے رہے جہاں آپؐ حجۃ الوداع کے موقع پر تقریباً سوا لاکھ مسلمانوں کے مجمع سے مخاطب ہیں۔ اپنی دعوت و رسالت کے حق کو ادا کرنے پر رب کے سامنے جوابدہی کےلیے امت سے معلوم کرتے ہیں۔ تمام مجمع یک زبان ہے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے رسالت کا حق ادا کردیا۔ نصیحت کا کام پورا کردیا۔ امانتِ الٰہی (دعوتِ دین) کو کماحقّہ ہم تک پہنچا دیا۔‘‘ آخر میں آپؐ تین بار انگشتِ شہادت اٹھا کر اپنے رب کو بھی اس پر گواہ بناتے ہیں۔

قرآن کی رُو سے اور آپؐ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم سب مسلمان اسی دعوتِ دین کی ادائیگی کےلیے اپنے گرد و پیش کے انسانوں کے سامنے خدا کے حضور گواہی کےلیے جوابدہ ہوں گے۔ کیا، تیاری ہے ہماری؟

سلام اسؐ پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اسؐ پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے
درود اسؐ پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاکبازوں میں
درود اسؐ پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں