[ad_1]
پاکستان کے سب سے بڑے معاشی ہب کراچی کے مسائل دیکھ کر اب تو صوبائی حکومت کے وزرا بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ شہر میں بہت سے چینلجز ہیں اور خاص طور پر سڑکوں کے مسائل کی وجہ سے شہریوں کو تکلیف کا سامنا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کو عالمی چیمپئن بنوانے والے کپتان یونس خان نے بھی شہر کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ میں موہنجودڑو میں رہتا ہوں، شہر کے ساتھ واقعی زیادتی ہورہی ہے، کراچی کی ایسی حالت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
بدقسمتی سے نہ تو وفاق اور نہ ہی صوبائی حکومت شہر کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ اس شہر نے گزشتہ دور حکومت میں تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دیا اور عمران خان نے بطور وزیراعظم شہر کےلیے اربوں روپے کے بجٹ کا اعلان تو کیا لیکن وہ شہر کی حالت بدلنے میں ناکام رہے۔
گزشتہ 15 سال سے صوبے پر حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی بھی کراچی کو اون کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن شہر کو کچھ دینے کےلیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ ماضی میں صوبائی حکومت شہر کے مسائل حل کرنے کا ذمے دار بلدیاتی حکومت کو قرار دیتی تھی لیکن اس بار میئر و ڈپٹی میئر کراچی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہونے کے باوجود شہریوں کے مسائل میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
حالیہ انتخابات میں کراچی کے شہریوں نے متحدہ قومی موومنٹ کو یہ سوچ کر مینڈیٹ دیا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے، تاہم وفاقی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی اہم اتحادی ہونے کے باجود ایم کیو ایم اب تک شہر کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں، جس میں عام طور پر روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک میں ہونے والی نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی ووٹر لسٹیں تیار ہوئیں، جس میں 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں 22 کروڑ 26 لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا۔ چونکہ 2024 کے عام انتخابات میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا، یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں نوجوانوں سے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے گئے۔
حالیہ انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بھی اپنے انتخابی منشور میں کراچی کے نوجوانوں سے تعلیم، صحت، روزگار، معیشت اور شہر میں امن وامان کی صورتحال سے متعلق درجنوں وعدے کیے گئے تھے لیکن وفاقی کی اہم اتحادی جماعت ہونے کے باوجود شہر قائد کے نوجوانوں کے مطابق ایم کیو ایم نے انھیں مایوس کیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں 5 کروڑ 68 لاکھ سے زائد ووٹرز کی عمر 18 سے 35 برس کے درمیان ہے اور یہ تعداد مجموعی ووٹرز کا 44.2 فیصد بنتی ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی جانب سے عام انتخابات 2024 سے متعلق جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں کم تھا لیکن نوجوانوں کے ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہوا۔ ان انتخابات میں نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مجموعی ووٹر (47.6 فیصد) ٹرن آؤٹ سے بھی زیادہ رہا۔ نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا جوکہ ملکی تاریخ میں نوجوانوں کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں نوجوانوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ 37 فیصد تھا۔
ایم کیو ایم کی جانب سے پیش کردہ منشور کے چند اہم نکات:
• نوجوانوں کے ذریعے 100 بلین ڈالر زرِ مبادلہ کما کر پاکستان کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے چنگل سے آزاد کروانے کا عملی فارمولا بنایا جائے گا۔
• قوم کی عزتِ نفس بحال کرنے کےلیے انکم سپورٹ پروگرام کے بجائے انکم جنریشن پروگرام کا قیام عمل میں لائیں گے۔
• پاکستان کے معاشی انجن ’کراچی‘ پر سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی بحران سے باہر نکالیں گے۔
• شہروں میں آباد غریب آبادیوں کےلیے سبسڈائزڈ قیمتوں پر اشیائے خورونوش کی فراہمی کریں گے۔
• شہروں اور تحصیلوں میں کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کیا جائے گا۔
• ضلعی خودمختاری کے حصول کےلیے 3 آئینی ترامیم کی جائیں گی۔
نوجوانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کا منصوبہ
ایم کیو ایم پاکستان ڈیجیٹل کے شریک سربراہ اور سی ای او این ٹو این نادر قریشی کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ایم کیو ایم کا مقصد صرف تعلیم فراہم کرنا نہیں بلکہ انہیں ہنرمند بنانا ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہوسکیں اور گھر بیٹھ کر آسانی سے ڈالر کماسکیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے کراچی میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کےلیے ایکسپو سینٹر میں یوتھ کنونشن منعقد کیا جس میں نوجوانوں کو نوکری کی تلاش کے بجائے اپنا کاروبار کرنے کےلیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس پروگرام میں آئی ٹی ایکسپرٹ سے معاونت کے بعد ’100 آئیڈیاز‘ کے نام سے اسٹارٹ اپ متعارف کروائے گئے۔ ’100 اسٹارٹ اپ آئیڈیاز‘ کا پلیٹ فارم ’ایم کیو ایم کنیکٹ‘ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کنیکٹ ایپ پورٹل ضرور ہے مگر وہاں پر موجود اسٹارٹ اپس کے آغاز کےلیے جتنا سرمایہ درکار ہے وہ ایک عام نوجوان برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے اپنے کارکن خود بھی ان اسٹارٹ اپس سے متاثر نہیں ہوئے تو پھر ایک عام نوجوان کیسے راغب ہوگا۔ ایک ماہ گزرنے پر بھی اب تک کوئی کامیاب نوجوان یا اس پورٹل کی قابل ذکر کامیابی سامنے آئی، نہ اس کے اعداد وشمار جاری ہوئے۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی سبین غوری نے بتایا کہ آن لائن کورسز کے علاوہ ہم نے چین کی ایک کمپنی کے ساتھ ایم او یو سائن کیا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو 3 سال کا ڈپلومہ کروایا جائے گا، جس میں وہ ابتدائی دو سال کی تعلیم نظیر حسین یونیورسٹی سے حاصل کریں گے اور پھر ایک سال کےلیے انہیں چین بھیجا جائے گا، جس کے بعد انہیں نوکری بھی دی جائے گی اور یہ بات معاہدے میں شامل ہے۔
’مہنگائی میں کمی کے دعووں کے باوجود عوام کی پریشانی میں کمی نہیں آئی‘
وائس آف امریکا کی جانب سے بین الاقوامی ادارے ’اپسوس‘ کے ذریعے کرائے گئے سروے کے مطابق 70 فیصد نوجوانوں کا ماننا ہے کہ ملک میں اس وقت سب سے بڑا چینلج مہنگائی ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں نے بے روزگاری، غربت اور کرپشن کو ملک کے دیگر بڑے مسائل قرار دیا۔
پرائیوٹ سیکٹر میں نوکری کرنے والے 30 سالہ نوجوان اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم نے وزیراعظم سے ملاقات میں مہنگائی میں کمی پر انہیں خراج تحسین پیش کیا، لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تو مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑا چینلج ہے پھر یہ مہنگائی میں کمی کے شادیانے کیوں بجائے جارہے ہیں؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ مہنگائی سے متعلق اداروں کے اعدادو شمار درست ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی آج بھی اپنے عروج پر ہے، کھانے پینے کی بنیادی چیزیں بھی غریب کی دسترس سے باہر ہیں، ماسوائے آٹے کی قیمت میں کمی کے علاوہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آج بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ دودھ اور سبزیوں کی قیمتیں سب کے سامنے ہے اور اگر چند ایک چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہونے کے باوجود عوام سے بجلی اور گیس کی بلوں کی مد میں کسر پوری کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر ایجنسیوں کی رپورٹ کے بجائے عملی طور پر عام آدمی کی مشکلات کا جائزہ لے تو شاید وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے گی۔
سبین غوری نے مہنگائی اور بے روزگاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معاشی صورتحال کے باعث آئی ایم ایف پروگرام ہماری مجبوری ہے، ورنہ ہم ڈیفالٹ کی طرف چلے جائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو پی ڈبلیو ڈی سمیت دیگر اداروں کی بندش یا انضمام جیسے مشکل فیصلے لینے پڑرہے ہیں۔ البتہ اس میں ایم کیو ایم اپنا کردار ادا کررہی ہے، وہ قائمہ کمیٹی اور کابینہ میں بیٹھ کر اس مشکل صورتحال میں اصلاحات کےلیے اپنی تجاویز دے رہی ہے، جیسا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین کو دیگر اداروں کو فٹ کیا جائے گا اور ہم اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔ ہم ان مسائل پر بات کررہے ہیں جس سے براہ راست عوام کا فائدہ ہو۔ ہم نے بجلی کی قیمت میں کمی کےلیے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے پچھلے معاہدے ختم کرکے نئے معاہدے کرنے کی بات بھی کی ہے۔
کراچی کے شہریوں کا ماننا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اُس وقت تھی جب وہ حقیقتاً بجلی، پانی، سیوریج سمیت دیگر عوامی معاملات پر آواز اٹھاتی تھی، اب ایم کیو ایم کا وجود مختصر ہے، جن علاقوں میں اراکین منتخب ہوئے وہاں کا انفرااسٹرکچر ہی اس کامیابی کی دلیل یا ضمانت دے سکتا ہے۔ وفاق کے ساتھ کئی حکومتوں میں اتحادی اور اہم مواقعوں پر اپنے ووٹ سے منظرنامہ بدلنے کی اہمیت کے باوجود ایم کیو ایم کے اندر کوئی وقعت نظر نہیں آتی جس کی بڑی وجہ آپس کے اختلافات ہیں اور بعض مواقعوں پر ایم کیو ایم کا احتجاج اور مختلف مسائل پر آواز اٹھانا محض تشہیر کے علاوہ کچھ نہیں۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند سال کے دوران کراچی کےلیے کوئی بھی جماعت بڑا پروجیکٹ منظور نہیں کرا پائی۔ سابق وزیراعظم عمران خان اسی شہر سے منتخب ہوئے اور پی ٹی آئی کراچی کی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن اس کے باجود شہر کو کوئی پروجیکٹ نہیں ملا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کرتا دھرتا کراچی کو اون ہی نہیں کرتے۔ یہ وہ گنا ہے جس سے سب رس کشید کیے جا رہے ہیں وہ بھی مشینوں میں پیس کر کچل کر، لیکن اس کو کچھ دینے کےلیے کوئی بھی تیار نہیں۔
شہر کی سیکیورٹی کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شہریوں سے بائیک، موبائل فون، نقدی چھیننے کے علاوہ زندگیوں سے بھی محروم کیا جارہا ہے لیکن شہر کے منختب نمائندے اور صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی نے شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت میں ہمارے پاس صرف 7 سیٹیں تھیں اور وہ انتہائی اہم تھیں لیکن اس کے باوجود ہمیں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا ہم وہ کرنے میں ناکام رہے لیکن اس بار ہم نے اپنے منشور میں شہر میں سرمایہ کاری کو جو اعلان کیا ہے وہ ضرور پورا کریں گے اور اس حوالے سے کراچی کے انفرااسٹرکچر کےلیے مسلم لیگ (ن) نے ’کے فور‘ اور ’کے سی آر‘ جیسے پروجیکٹ کےلیے بجٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ جب ایم این ایز کو ڈیولپمنٹ فنڈز ملیں گے تو آپ کو شہر میں کام ہوتا دکھائی دے گا۔ ابھی الیکشن کو چند ماہ ہی ہوئے ہیں، اگلے چند سال میں آپ کو کراچی میں واضح تبدیلی دکھائی دے گی۔
’ضلعی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے متعلق آئینی ترمیمی بل‘
ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے منشور میں ضلعی خودمختاری کے حصول کےلیے 3 آئینی ترامیم کرنے کا وعدہ بھی کررکھا ہے۔ (پہلی ترمیم میں بلدیاتی و شہری حکومت کو مضبوط کرنے کےلیے آئینی تحفظ مانگا گیا ہے۔ دوسری ترمیم کے تحت بلدیاتی محکمے آئین کے اندر درج ہونے چاہئیں۔ تیسری ترمیم یہ کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل عام انتخابات نہ ہوں۔)
شہری حکومت سے متعلق آئینی ترامیم سے ایم کیو ایم کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس سے کراچی کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس سوال سے متعلق سبین غوری کا کہنا تھا کہ اختیارات اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سابق میئر کراچی وسیم اختر کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اب اپنی صوبائی حکومت ہونے کے باوجود مرتضیٰ وہاب کو بھی اختیارات کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جب کہ ہمارا مقصد صرف عوام کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اس بار ہمارے بائیکاٹ کی وجہ سے میئرشپ ان کو مل گئی اور ویسے بھی ان کے دو سال رہ گئے ہیں، اگلے الیکشن میں ویسے بھی میئر اور ڈپٹی میئر ایم کیو ایم کا ہی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے مسائل کے حل کےلیے ہم نے شہری حکومت سے متعلق تقریباً 10 دن پہلے بل پیش کیا ہے اور اس حوالے سے ہمیں نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ حکومتی جماعت پیپلزپارٹی کو منانے میں بھی ہمارا ساتھ دے گی، اس کے علاوہ پیپلزپارٹی سمیت پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف سے اس معاملے پر مذاکرات چل رہے ہیں۔
اس شہر کی ترقی اور عوام کی دادرسی کے لیے دعوے اور وعدے تو سب ہی کرتے رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار ایم کیو ایم اپنے دعووں پر پورا اتر پائے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link