[ad_1]
چند دن پہلے وزارت تعلیم کی طرف سے ہونے والے انکشاف نے ملک بھر میں تعلیم کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ لوگ تعلیم کا موازنہ پولیو سے کرنے لگ گئے ہیں کہ جس طرح ہم 77 سال میں پولیو فری ریاست نہیں بن سکے، اُسی طرح سو فیصد تعلیم فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوچکے ہیں۔
گو کہ قیام پاکستان سے تاحال متعدد تعلیمی پالیسیاں بنائی جاچکی ہیں لیکن کیا وجہ ہے تقریباً پون صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم تعلیم کے معاملے میں اپنے پڑوسی ملکوں سے کہیں پیچھے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے تعلیمی نظام پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔
وزارت تعلیم کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ 6 ہزار 520 بچے اسکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 10 سے 12 سال کی عمر تک کے 49 لاکھ 35 ہزار 484 بچے مڈل تعلیم سے محروم ہیں۔ ہائی اسکول کے کل 45 لاکھ 45 ہزار 537 طلبا و طالبات تعلیم سے محروم جبکہ ہائر سکینڈری اسکول کے 59 لاکھ 50 ہزار 609 طلبا و طالبات تعلیم سے محروم ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی ہے جبکہ اُس کے بعد سندھ اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کم از کم کتنا وقت درکار ہے؟ عام آدمی پریشان ہے کہ اگر ریاست اور حکومتیں ان 77 برسوں میں تعلیم کے مسئلے کو حل نہیں کرسکیں تو پھر اُنہیں مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا؟
راقم کے مشاہدے کے مطابق تعلیم کے مسئلے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ غریبوں کا ایک بڑا طبقہ صرف اس لیے ہی بچوں کو تعلیم حاصل نہیں کرواتا کہ اُن کے بچوں نے پڑھ لکھ کر کون سا افسر بن جانا ہے؟ ملک کے مختلف دور دراز کے علاقوں میں جہاں آج بھی وڈیرہ شاہی کا دور دورہ ہے، وہاں تعلیم دلوانا اُن لوگوں کی ترجیح ہی نہیں اور دوسرا وڈیرے، سردار، جاگیردار اور زمیندار وغیرہ کبھی نہیں چاہتے کہ اُن کے مزارعین اور اُن کے اردگرد کے دیہاتوں سے بچے اسکول جائیں۔ یاد رہے کہ اکیسویں صدی میں یہ طاقتوروں کا غریبوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے کا رویہ آج بھی موجود ہے۔
تعلیم کی خراب صورتحال کی ایک اور وجہ سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت، اساتذہ کا غیر ذمے دارانہ رویہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور خاص طور پر وہ پروپیگنڈہ جو سرکاری اسکولوں کے حوالے سے کیا گیا کہ ان اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے عوام سرکاری اسکولوں سے تقریباً متنفر ہوگئی اور اب حالت یہ ہے کہ بہت سی پُرکشش سہولتوں کے باوجود عوام سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا پسند نہیں کررہے۔ جس کی وجہ سے پرائیویٹ نظام تعلیم کو پنپنے کا موقع مل گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ والدین مہنگائی کا رونا رونے کے باوجود اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیم دلوانا ہی پسند کررہے ہیں، کیونکہ اُن کے دماغوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ گورنمنٹ نظام تعلیم مفلوج ہوگیا اور اس کے بہتر ہونے کا اب کوئی چانس نہیں ہے۔
تعلیم کی اس صورتحال کی تیسری وجہ ہمارے تعلیم کا دہرا نظام ہے۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ ہمارے تعلیم کے نظام کا میڈیم کیا ہوگا، کیا اُردو میں تعلیم دی جائے یا انگریزی میں۔ یہ بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے عوام اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں کو کون سی تعلیم دلوانا ہے کیونکہ اُنہیں باور کروا دیا گیا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں انگریزی تعلیم کےلیے اساتذہ ہی موجود نہیں۔ اس لیے سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلوانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ اس سوچ کی تائید کرنے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ تاحال جو حکمران، بیوروکریٹس اور اشرافیہ عوام پر حکومت کر رہی ہے، وہ کہیں نہ کہیں ان اسکولوں، کالجوں سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں لیکن اب وہ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکیٹر میں تعلیم دلوا رہے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات تو یہ کہ جو اساتذہ سرکاری اسکولوں، کالجوں میں تعینات ہیں، اُن کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ایسے میں عوام کا اعتبار سرکاری نظام تعلیم پر کیسے قائم ہوگا؟ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے یہ واقعی ایک سوال ہے؟
راقم کو پنجاب کے مضافات میں اسکولوں کو جاننے کا موقع ملا تو حیرانگی ہوئی کہ کوٹ ادو کے اندرون گاؤں کے پرائمری اسکول کے بچوں کو شہر کے ہائی اسکول میں محض اس لیے داخلہ نہیں مل پاتا کہ اُن کے بارے میں اخذ کرلیا گیا ہے کہ اُن بچوں کو کچھ بھی آتا جاتا نہیں۔ اسی طرح صوبہ پنجاب کے ضلع چارسدہ میں بھی تعلیم کی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ یہ محض ایک گاؤں کی صورتحال نہیں بلکہ ملک کے بیشتر گاؤں کے بچوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں اُن بچوں کا کیا قصور ہے؟ آپ نے شہر سے کسی انگریزی پڑھانے والے اُستاد کو گاؤں میں لگادیا لیکن ہمارے کرپٹ نظام کی وجہ سے وہ محکمے کے کرپٹ افسران سے مل کر اسکول جاتا ہی نہیں اور گھر بیٹھے ہی تنخواہ وصول کرتا رہتا ہے۔ اس صورتحال کا سب کو علم ہے لیکن چونکہ قیام پاکستان کے بعد ہی ہم بحیثیت قوم چونکہ اس رویے کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے اس پر کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔
آج کل تو ویسے ہی موبائل کا زمانہ ہے، اس لیے انسپیکشن کے وقت اُن اساتذہ کو پہلے ہی اطلاع دے دی جاتی ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ یوں ہی چلتا چلا آرہا ہے اور چلتا رہے گا، جب تک اس پر زیرو ٹالیرنس پالیسی نہ بنائی جائے۔
اس صورتحال پر ماضی میں غیر سرکاری تنظیموں نے آواز اٹھائی اور ایس ڈی پی آئی نامی ایک ادارے نے ملک بھر میں پرائمری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی مرتب کی، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جو غیر سرکاری تنظیمیں انسانی حقوق پر آواز بلند کرتی تھیں اُن پر اس طرح کی قدغنیں لگادی گئیں کہ وہ سیکٹر اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ جو گنی چنی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں محدود ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے متعدد بار آواز اٹھائی اور اصلاحات کےلیے تجاویز دیں لیکن بہت کم اُن کی اصلاحات کو زیر غور لایا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ تعلیم کی اس گمبھیر صورتحال کو بہتر بنانے کےلیے کرنا کیا چاہیے، یا اسے یوں ہی چھوڑ دینا چاہیے تاکہ ملک میں جرائم کی شرح میں اضا فہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کےلیے زیرو ٹالیرنس پالیسی اپنائی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اس صورتحال کو بہتر بنانے کےلیے اقدامات کیے جائیں۔ سب سے پہلے تعلیم کے بجٹ کو بڑھایا جائے اور اُسے محفوظ ہاتھوں میں دیا جائے تاکہ اُس پیسے کو صرف اور صرف تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے پر ہی خرچ کیا جائے۔ ملک کے طول و عرض میں یونین کونسل سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیں اور جو بچے اسکول نہیں جارہے اُن کو اسکول لانے کےلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ملک بھر میں سرکاری و ہائی اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ مقامی کوالیفائیڈ اساتذہ کو مواقع فراہم کرکے اگر اُنہیں سرکاری ملازمت دینا ممکن نہیں تو اُن کےلیے پارٹ ٹائم معاوضہ دے کر تعلیم کے سلسلے کو بحال کیا جائے اور اُنہیں ٹارگٹ دیا جائے کہ اُنہیں ہر حال میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے اور جو اساتذہ کام نہ کریں اُنہیں فوری طور پر تبدیل کرکے نئے پارٹ ٹائم اساتذہ مقرر کیے جائیں۔ ان پارٹ ٹائم اساتذہ کو بہتر معاوضے دیے جائیں تاکہ وہ اپنے فرائض میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں۔
اس سوچ کا خاتمہ کرنے کےلیے تعلیم کہ اُن کے بچوں کےلیے ضروری نہیں، اس ضمن میں قانون بنایا جائے کہ تعلیم دلوانا ہر خاندان کی اہم ذمے داری ہے اور اگر کوئی خاندان اس ذمے داری سے بھاگے گا تو اُسے جرمانہ اور سزا دی جائے گی۔ خانہ بدوش، کھیت مزدور اور بھٹہ مزدوروں کےلیے اُن کی جگہ پر ہی پرائمری اسکول کھولے جائیں تاکہ کوئی غریب سے غریب بھی مہنگائی اور اپنی بے چاری کا بہانہ بنا کر بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہ رکھ سکے۔
پون صدی کے بعد ہی ہم اس بات پر متفق ہوں کہ ہم نے کون سا نظام تعلیم پڑھانا ہے، اُردو یا انگریزی اور اگر انگریزی نظام تعلیم ہی نافذ کرنا ہے تو کم از کم اسے تو ڈھنگ کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ بہتر انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کو فل ٹائم اور پارٹ ٹائم بھرتی کیا جائے اور بہتر معاوضے دے کر بہتر نتائج کی گارنٹی لی جائے۔ اُن کی اسکولوں اور کالجوں میں سو فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں اساتذہ کو صرف ہفتے میں پانچ دن اور ان پانچ دنوں میں 20 سے 25 گھنٹے پڑھانا پڑتا ہے اور اس کےلیے باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر وہ اپنے فرائض سے غفلت برتے تو ملک کیسے تعلیم کے ٹارگٹ کو پورا کرسکتا ہے۔ یہ تو یقیناً اُن اساتذہ کی اپنے آپ اور ملک کے ساتھ زیادتی ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن بچوں کے مستقبل کو مخدوش کرنے کی پوری کوشش ہے جن اسکولوں میں وہ پڑھا رہے ہیں۔
تعلیم حاص کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور ہم بحیثیت والدین، بحیثیت ریاست اور بحیثیت حکومت اُسے اس حق سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ اب وہ بچہ آپ کے شہرمیں ہے یا آپ سے سیکڑوں میل دُور کسی دیہات میں ہے، اُسے وہ تمام سہولیات دی جائیں جو شہر میں رہنے والے بچوں کو دی جارہی ہیں۔ اس ضمن میں آپ ترقی یافتہ ملکوں کے نظام تعلیم کو دیکھیں اور ہمیں جہاں اپنے نظام میں وہ کمی نظر آرہی ہے اُس کمی کو پورا کرنے کےلیے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کریں۔ اس دہرے نظام تعلیم کو مکمل طور پر ختم کرکے یکساں نظام تعلیم کو رائج کریں تاکہ آنے والی نسل اپنی پسماندگی کی وجہ صرف اور صرف دہرے تعلیمی نظام کو ہی نہ سمجھ بیٹھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مندرجہ بالا اقدامات پر سنجیدگی سے غور کریں اور تعلیمی پالیسی میں جلد از جلد تبدیلیاں کرکے تعلیم پر اُٹھنے والے سوالات کو ختم کریں۔ اگر موجودہ دور میں ریاست اور حکومت ایسا کرگئی تو یقیناً وہ ایسے تعلیمی نظام کو جنم دے گی جو صحیح معنوں میں پاکستان کا نظام تعلیم ہوگا اور جس کی پہنچ نہ صرف شہر بلکہ دُور مضافات میں رہنے والے ہر بچے کو حاصل ہوگی، تب ہی ہم تعلیم کے ہدف کو پورا کرسکیں گے اور تب ہی دنیا میں ایس ڈی جی،ز (Sustainable Development Goals ) کو پورا کرسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link