[ad_1]
’’کپتان پیدائشی ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے‘‘ آپ نے یہ جملہ اکثر سنا اور پڑھا ہوگا۔ واقعی ایسا ہے بھی۔ کئی اوسط درجے کے کرکٹرز بہترین کپتان ثابت ہوتے ہیں جبکہ کئی غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی قیادت کے بوجھ تلے دب کر اپنا روایتی کھیل بھی بھول جاتے ہیں۔
پاکستان میں کپتانی کا میوزیکل چیئر گیم اکثر اوقات جاری رہتا ہے۔ ٹیم اگر ہارنے لگے تو اس میں تیزی آجاتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے ہر طرز کی کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کے ہاتھ صرف ناکامیاں ہی آئی ہیں۔ امریکا میں منعقدہ ورلڈکپ بابر اعظم کا امتحان تھا، جس میں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ ٹیم پہلے راؤنڈ تک محدود رہی۔ امریکا جیسے نوآموز حریف نے ہرا دیا۔ بھارت کے خلاف جیتی بازی گنوا دی۔
اس سے پہلے بھی کارکردگی اتنی خاص نہ تھی۔ اسی لیے ذکا اشرف نے ان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو قیادت سونپی تھی لیکن محسن نقوی نے آتے ہی پیسر کو صرف ایک سیریز کی بنیاد پر ہٹا دیا۔ وہ بابر کو بطور کپتان واپس لے آئے، جس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ اس کے بعد تبدیلی کی بازگشت ہونے لگی لیکن وائٹ بال میچز قریب نہ ہونے کی وجہ سے فوری فیصلے سے گریز کیا گیا۔
یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی کہ بابر جتنے اچھے بیٹر ہیں اتنے اچھے کپتان نہیں۔ بیٹنگ میں زبردست کارکردگی کی وجہ سے انھیں قیادت ملی لیکن وہ تمام تر کوشش کے باوجود خود کو بہترین کپتان ثابت نہیں کرسکے۔ کئی آئی سی سی ایونٹس میں ذمے داری سنبھالنے کے باوجود انھوں نے ٹیم کے شو کیس میں ایک ٹرافی کا اضافہ بھی نہ کرایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پھر پی سی بی ان سے امید لگائے بیٹھا ہے اور شاید چیمپئنز ٹرافی تک قیادت سونپ بھی دے۔ وجہ کوچ گیری کرسٹن کا اصرار ہے۔
اسی طرح اگر ہم ٹیسٹ کرکٹ کی بات کریں تو شان مسعود کو گزشتہ سال کپتان بنایا گیا۔ آسٹریلیا میں ٹیم تینوں ٹیسٹ ہار گئی جو کہ متوقع تھا لیکن بنگلہ دیش کے خلاف وائٹ واش کی کسی کو ایک فیصد بھی امید نہ تھی۔ ابتدائی پانچوں ٹیسٹ ہار کر وہ پاکستانی تاریخ کے ناکام ترین کپتان بن چکے، آگے مزید سخت امتحان منتظر ہیں جس سے ریکارڈ اور بگڑ سکتا ہے۔
اگر ہم شان کی قیادت کو بھول جائیں تب بھی بطور بیٹر تو ٹیم میں جگہ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ کپتان کو ’’لیڈنگ فرام دی فرنٹ‘‘ کی واضح مثال ہونا چاہیے۔ وہ اتنا اچھا پرفارم کرے کہ لوگ یہ کہیں کہ ’’کپتان اکیلا کیا کرے جب دیگر پلیئرز کچھ نہیں کر رہے‘‘ جیسا کہ ماضی میں بابراعظم کے ساتھ ہوتا رہا، جس کی وجہ سے ان کی کپتانی بھی بچ جاتی۔ جب بیٹنگ متاثر ہوئی تو قائدانہ صلاحیتوں کی کمی بھی نمایاں ہوگئی۔ شان مسعود ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں، کرکٹ کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان ٹیم میں گروپنگ بہت ہے جس کی وجہ سے انھیں پلیئرز سے کام لینے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ خود پرفارم نہیں کر پا رہے تو بابراعظم یا کسی اور کھلاڑی کو کس منہ سے کہیں گے کہ رنز کیوں نہیں بنا رہے؟ شاید وہ کپتان نہ ہوتے تو ٹیم میں جگہ بھی برقرار نہ رہ پاتی۔
کرکٹ اسکلز کا کھیل ہے۔ اگر آپ کو انگریزی نہیں آتی تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ بابر اعظم اس کی مثال ہیں۔ البتہ اگر کوچز گورے ہوں تو وہ انگریزی میں مہارت رکھنے والے سے خوش رہتے ہیں، کیونکہ انھیں بات چیت میں آسانی ہوتی ہے،۔ شان کو شاید اسی وجہ سے جیسن گلیسپی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ یہاں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کپتان کے تقرر کا اختیار تو چیئرمین پی سی بی کا ہے، کوچز کہاں سے اتنے طاقتور ہوگئے کہ اپنے فیصلے منوائیں گے؟
انگلینڈ کے خلاف سیریز مشکل ترین ثابت ہونے والی ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف ہم دونوں ٹیسٹ ہار گئے۔ انگلینڈ نے دو سال پہلے ہمیں اس وقت تینوں ہوم ٹیسٹ میں شکست دی تھی جب ٹیم بظاہر مضبوط لگتی تھی۔ اب کیا ہوسکتا ہے اس کا تصور ہی خوفناک ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ تینوں طرز کا ایک ہی کپتان ہونا چاہیے لیکن ہمیں ایسے کھلاڑی کم نظر آتے ہیں جو ریڈ اور وائٹ بال میں یکساں اچھا پرفارم کریں۔ البتہ محمد رضوان کی کارکردگی انھیں بہترین امیدوار ثابت کرتی ہے۔ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کو وہ ٹائٹل بھی جتوا چکے، مگر بات جہاں پاکستانی قیادت کی آتی ہے تو ان پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔ رضوان میں ایسی کیا خامی ہے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
بڑے لوگ کانوں کے کچے ہوتے ہیں، کسی نے رضوان کے بارے میں بھی پی سی بی میں ایسی باتیں پھیلا رکھی ہیں کہ وہ مخصوص کھلاڑیوں کو پروموٹ اور ٹیم میں گروپنگ کرتے ہیں۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ رضوان کے بہت قریب ہوں لیکن میری جتنی ملاقاتیں ہوئیں یا فون پر بات ہوئی میں نے انھیں سادہ انسان پایا۔ ان پر گروپنگ کے الزام کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے سو فیصد کمیٹڈ کرکٹر ہیں جو تمام تر منفی سرگرمیوں سے بھی دور رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ایجنٹ کی وجہ سے رضوان کے مخالف ہیں، پھرتو بابر اعظم اور شاہین آفریدی کو بھی کپتان نہیں بنانا چاہیے تھا کیونکہ تینوں کے ایک ہی ایجنٹ ہیں۔ شاہین کو وائٹ بال میں موجودہ بورڈ حکام کپتان نہیں بنانا چاہتے ورنہ وہ بہترین انتخاب ثابت ہوتے۔
بابر ناکام ثابت ہوچکے، ٹیسٹ میں شان بھی کچھ نہ کرسکے، ایسے میں اب اگر محمد رضوان کو آزما کر دیکھ لیا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کیا پتا وہ ٹیم کو یکجا کردیں اور پھر سے مثبت نتائج سامنے آنے لگیں، اگر بابر کو برقرار رکھا تو چیمپئنز ٹرافی کے بعد آپ نیا کپتان ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ شان کو اور طعنے سننا پڑیں گے، ابھی شاید کوچز کی بات مان لی جائے، البتہ آج نہیں کل آپ کو تینوں طرز کا ایک ہی کپتان بنانا ہوگا اور شاید وہ محمد رضوان ہی ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link