منٹو کی مختصر کہانیوں کی ایک کتاب گزشتہ دنوں میرے زیر مطالعہ رہی، ان میں سے ایک ’’نیا قانون‘‘ نامی کہانی ہمارے انگریزی کے بی اے کے نصاب میں شامل تھی۔ المختصر اس کہانی میں منگو کوچوان صرف اس لیے یکم اپریل کا انتظار کرتا ہے کہ یکم اپریل کو یہاں نیا قانون نافذ کیا جائے گا، ہر طرف انقلاب کا دور دورہ ہوگا اور انگریز راج سے نجات مل جائے گی۔
لیکن منگو کو مایوسی کا سامنا تب ہوا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور وہی فرسودہ نظام موجود ہے۔ یہاں رکیے ہم بھی تو منٹو کی اس کہانی کے منگو کوچوان کی طرح ہیں جنہیں ہر آنے والی نئی حکومت، سیاسی رہنما اور جماعتیں ترقی کے سہانے سپنے دکھا کر غائب ہوجاتی ہیں۔ ہم بھی اس یکم اپریل کے انتظار میں رہتے ہیں۔ کبھی ہمارے اداروں کو قومیا لیا جاتا ہے تو کبھی ہماری مرضی کے بغیر ان کی نجکاری کردی جاتی ہے۔
کبھی نظریہ ضرورت کے تحت آئین کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں تو کبھی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بھی نہیں مانے جاتے۔ کبھی نصاب میں سنگین غلطیاں ہوتی ہیں تو کبھی ’مار نہیں پیار‘ کا نعرہ بلند ہوتا ہے، کبھی اسکولوں اور مدارس میں تشدد کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم صرف پاکستان اور یہاں کے نظام کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اس سب سے ہمارا واسطہ براہ راست یا بلاواسطہ ضرور ہے۔
کسی بھی ملک کی ساکھ اس کی سیاحت اور معیشت کو براہ راست متاثر کرتی ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے حجم اور طاقت میں نہیں، بلکہ وہاں موجود شہریوں کی مجموعی خوشی سے ہے۔ جمہوری معاشرہ جلسے جلوسوں کی اجازت دیتا ہے لیکن اگر تمام کے تمام مسائل سڑکوں پر ہی حل کرنے ہیں تو پارلیمان کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ عدلیہ اور پارلیمان ہمارے حقوق کے تحفظ کےلیے ہی تشکیل دیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی قیادت کا فقدان تو ہے ہی لیکن جب بھی کوئی اچھا اور سچا لیڈر سامنے آنے کی کوشش کرتا ہے اس کا راستہ ہی روک لیا جاتا ہے۔
ملک میں تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کو بلاخوف و خطر نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن سب سے منفی پہلو جو ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ عوام سے لاتعلقی ہے، خواہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی دنگل، عوام سے ووٹ حاصل کرنے کےلیے باقاعدہ منت سماجت کی جاتی ہے اور بعد ازاں انھیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں عوام کی اپنی بھی تو غلطی ہے۔ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی برادری اور خاندان کا ہی سوچتے ہیں اور انھیں ہی ووٹ دیتے ہیں۔
اب اگر بات کریں ٹیکس نیٹ کی، تو کیا اشرافیہ اور حکومتی اہلکاروں سے درست ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ ہر مرتبہ ہی انکم ٹیکس گوشواروں میں گھپلے ہوتے ہیں، جبکہ عوام سے بل تو الگ رہے انواع و اقسام کے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں، جن میں سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ٹول ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس نہ جانے کیا کیا وصول کیا جاتا ہے۔ بات تو یہی ہے کہ شاید حکومتی ایوانوں اور فرینڈلی اپوزیشن کے محلات کے دروازے سنگلاخ لوہے کے بنے ہوئے ہیں، جو احساس کو بھی محسوس نہیں کرتے۔ عوام کے دکھ درد کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کوئی دروازہ حاجت روائی کےلیے نہیں کھلتا۔ کیا یہاں اندر اتنا شور ہے کہ غریب کی فریاد رد کردی جاتی ہے اور سنائی بھی نہیں دیتی۔
سابق صدر ضیاالحق نے ایک مرتبہ ایران کے روحانی لیڈر امام خمینی سے دریافت کیا کہ وہ ملک میں کس طرح اسلام کو نافذ کریں تو امام خمینی نے کہا کہ تمھارا قد کتنا ہے؟ ضیا الحق نے بتایا تو امام خمینی نے کہا کہ پہلے اپنے چھ فٹ پر اسلام نافذ کرلو اس کے بعد معاشرے کے سدھار کےلیے کوشش کرنا۔ کیا کسی لیڈر کو آج تک یہ خیال آیا ہے کہ اپنا آپ ہی ٹھیک کرلے، ان کے بارے میں ہی سوچ لے جنہوں نے انھیں ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے۔ کبھی ملک میں علیحدگی پسندی کی تحریکیں چل رہی ہیں تو کبھی سیاسی مقدمات میں عوام کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔
ان مفاد پرست لیڈروں نے ملک کے وسائل کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ اب اگر دیکھیں تو عوام کے پاس شناختی کارڈ تو ہیں لیکن وہ اپنی شناخت کےلیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کبھی لائنوں میں لگ کر بل جمع کرواتے ہوئے، کبھی چھوٹا سا جائز کام کروانے کےلیے رشوت اور سفارش کا سہارا لیتے ہوئے، کبھی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، کبھی ملاوٹ شدہ اشیا کو حق حلال کی کمائی سے خریدتے ہوئے۔ آخر ہم اپنا فرض کب پہچانیں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔