[ad_1]
نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’تم لوگ ضرور اپنے سے پہلی امتوں کی پیروی کرو گے، بالشت بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر، حتیٰ کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کرو گے۔‘‘ ہم نے عرض کی کہ ’’یا رسول اللہؐ آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اور کون‘‘۔ (صحیح بخاری)
آج ہمارا رویہ ایسا ہی ہے جس کے بارے میں رسول اللہؐ نے پہلے ہی اس حدیث میں فرمادیا تھا، یعنی انبیاؑ کی تعلیمات کو فراموش کردینا۔ پہلی اقوام نے بھی رسولوں کے احکام کو بھلا دیا، اپنے راہبوں کی پیروی کو مقدم جانا۔ آج ہمارا بھی رجحان یہی ہے کہ ہر معاملات زندگی میں رسول اللہؐ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ دین اسلام قرآن و سنہ کا مجموعہ ہے۔ تعلیمات رسولؐ کے مطابق ہی اگر کسی معاملے میں کوئی واضح حکم قرآن و سنہ سے نہ ملے تو اجماع و اجتہاد کی طرف جایا جائے گا، یہاں تک کہ کسی بھی معاملے میں صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کسی اور کے اقوال کو دین سمجھا جائے، یہ کیا صحیح مسلم ہونے کی دلیل ہے؟ ہرگز نہیں۔
سنہ کی مکمل پیروی نہ کرنے کی وجہ سے آج ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں، چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا زندگی کے دیگر معاملات سے۔ رسولوں کے احکامات کو وحی کی تائید حاصل ہوتی ہے، اور جب ان احکامات کو فراموش کیا جائے گا تو دین میں سوائے بدعات کے اضافہ کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جس کے بارے میں رسولؐ نے فرمایا ’’دین میں ہر نیا ایجاد کردہ کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔‘‘
حدیث رسولؐ کے مطابق آج ہم دوسری اقوام کی طرح رسولؐ کی سنہ سے ہٹ گئے ہیں اور دین میں نئی نئی بدعات کے پیچھے لگ گئے، جس کی وجہ سے ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ ہمیں ہر معاملات زندگی میں آسان راستے چاہئیں۔ ہر کام کے نعم البدل ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کے نام پر خود سے ہی دریافت کرلیے ہیں۔ عبادات کے ضمن میں دیکھ لیں، حکم رسولؐ ہے کہ تمہیں جب بھی حاجت ہو اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ سے مانگو، کوئی ذات اس قابل نہیں کہ تیری حاجت روائی کرسکے۔ لیکن آج ہم لوگ سب سے زیادہ اس حکم کے نافرمان ہیں۔ ہم سب نے اپنے چھوٹے چھوٹے خدا بنا لیے ہیں جن سے ہم مانگتے ہیں اور شکر گزار بھی انہی کے ہیں۔ ہم نے نمازوں کو ترک کردیا۔ پھر ہم نے حج کو ترک کردیا اور ہر سال عمرہ کو اپنے اوپر فرض کرلیا، کیونکہ اس میں ہمارا فائدہ ہے، عمرہ کے نام پر جو نفع ہم کماتے ہیں۔ یہ دین نہیں۔ آج حکومت عرب کو ہمیں تنبیہہ کرنا پڑی کہ حج و عمرہ کے نام پر جو گداگروں کی ایک بڑی فوج ہم سعودیہ بھجتے ہیں اگر اس کا سختی سے نوٹس نہ لیا گیا تو سعودی حکومت پاکستانی زائرین کے خلاف سخت اقدام بھی کرسکتی ہے۔ یہ بات بذات خود کس قدر شرمندگی کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں صرف پاکستانی ملک ہی ایسا ہے جہاں سے دین کے نام پر ہم یہ کام بھی کرتے ہیں۔ اس لیے دین کی بنیادوں کی حفاظت کرنا ہوگی، تبھی اس کی عمارت صحیح طور پر کھڑی ہوگی۔
اسی طرح عبادات میں ہم نے فرائض کو ترک کرکے نوافل کو لازم کرلیا۔ بے شک نوافل کا اپنی جگہ ثواب ہے لیکن فرمان رسولؐ کے مطابق جو فرض ادا نہیں کرتا اس سے نوافل ہرگز قبول نہیں کیے جائیں گے۔
معاملات زندگی میں دیکھ لیں صلہ رحمی کے متعلق رسولؐ نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو اس کے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جائے، اسے چاہیے کہ رشتے داروں سے صلہ رحمی کرے، ان سے اچھے تعلقات رکھے۔ لیکن آج اگر اللہ ہمیں رزق سے نوازتا ہے تو سب سے پہلے رشتے داروں سے ہی بائیکاٹ کرلیا جاتا ہے۔ پھر پڑوسی کے حقوق کے متعلق رسولؐ نے فرمایا کہ مجھے اتنی تاکید کی گئی کہ مجھے لگا وراثت میں ان کا حصہ مقرر کردیا جائے گا۔ لیکن آج ہم لوگ اگر کسی سے بے پروا ہیں تو وہ پڑوسی ہی ہے۔ نکاح کے بارے میں فرمان رسولؐ ہے کہ جیسے ہی اولاد بلوغت کی عمر کو پہنچے ان کے نکاح کردیے جائیں، کیونکہ نکاح عصمتوں کی حفاطت کا ذریعہ ہے۔ آج اس ایک سنہ کو ترک کرنے کی وجہ سے ہم کئی قسم کی بے ہودگیوں کا شکار ہیں۔
ہم نے اخلاقی اقدار کو ترک کردیا اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بداخلاقی کی قباحتیں ہمارے سامنے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیں رزق کمانے سے لے کر جزا و سزا تک ہمارا سارا نظام احکام رسول سے ہٹ کر ہے۔ رسول اللہؐ کی سنت صرف حلیے، ظاہری لباس اور وضع و قطع اختیار کرنے تک نہیں تھی، آپؐ کی اتباع تو زندگی کے ہر شعبے میں مشعل راہ اور وسیلہ نجات ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں رسولؐ نے فرمایا ’’میں اپنے بعد تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جو تم میں سے اسے مضبوطی سے تھامے گا کبھی گمراہ نہ ہوگا، وہ ہے کتاب اللہ اور میری سنت‘‘۔
آج ہم نے ان دونوں کو ہی چھوڑ دیا ہے اور دین کے بارے میں لوگوں کی رائے کو مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ تو پھر ہمارا انجام بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ہم سے پہلی امتوں کا ہوا۔ وہ بھی گمراہ ہوئیں اور ہم بھی گمراہ ہوں گے بلکہ ہورہے ہیں۔ دین میں اندھی تقلید ہمیں دین سے دور کیے جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کو پڑھا جائے، سیکھا جائے۔ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا اسی لیے فرض کیا گیا تھا کہ وہ دین کو پڑھے اور سمجھے، قرآن و حدیث کو پڑھے سمجھے اور اس پر عمل کرے، تاکہ ہم اپنی ترجیحات کا دائرہ کار صحیح سمت موڑ سکیں۔ دین کے معاملے میں کیوں کسی کا محتاج ہوا جائے جبکہ ہمارے سامنے رسول اللہؐ کی سنت روز روشن کی طرح آج بھی عیاں ہے، جیسا کہ صحابہ کے دور میں تھی۔ آج کی جدید ٹیکنالوجی میں دین حاصل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے، لہٰذا دین اب صرف ایک کلک پر ہے، پڑھنا نہیں جانتے تو پڑھے لکھے علما کو سنیں، جو قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرے، نہ کہ ان کو جو صرف اپنی رائے بیان کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link