[ad_1]
بیروت: حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی اسرائیل کافی عرصے سے کر رہا تھا اور گزشتہ روز فضائی حملے میں شہید کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل نے اپنے سب سے بڑے ہدف کو نشانہ بنالینے کے لیے اپنے انٹیلی جنس اداروں کو حزب اللہ کے رہنماؤں اور کمانڈرز کی ’’مخبری‘‘ پر لگادیا تھا۔
لبنان میں 17 ستمبر کو حزب اللہ کے کمانڈرز کے زیر استعمال پیجرز ایک ہی دن یکے بعد دیگرے دھماکوں سے پھٹنے لگے جس میں 2 درجن سے زائد شہید اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
ان افراد کی نماز جنازہ میں بھی حزب اللہ کے کارکنوں کے متعدد واکی ٹاکی دھماکے سے پھٹ گئے۔ جس میں 10 سے زائد افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے 4 روز بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حزب اللہ کے سربراہ حسن روحانی کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں۔
اسرائیلی دھمکیوں کے نتیجے میں حسن نصر اللہ کی سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔ وہ کسی ایک مقام پر زیادہ روز تک قیام نہیں کرتے تھے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس نے کسی طرح حزب اللہ کے سربراہ کے مقام کا پتا لگالیا اور یہ بھی کہ وہ ایک میٹنگ کے بعد اس مقام سے روانہ ہوجائیں گے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس نے اپنی فوج کو بتایا کہ حسن نصر اللہ اپنی جماعت کے زیر زمین بنائے گئے ہیڈکوارٹر میں ہیں جو زمین میں 50 فٹ سے زیادہ گہرائی میں ہے۔ یہ کثیرالمنزلہ عمارت جس کے ایک فلور پر حسن نصر اللہ موجود ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ کے یونٹ 119 کے طیاروں نے ٹھیک حسن نصر اللہ کی موجودگی کے مقام پر چند منٹوں میں 100 سے زیادہ بم یکے بعد دیگرے برسائے اور ہر بم زیر زمین 50 سے 70 میٹر کی گہرائی میں بنائے گئے محفوظ قلعوں میں گھس کر پھٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اسرائیل نے اس حملے میں بنکر بسٹر بموں کی اقسام جی بی یو-28 اور جی بی یو-37 استعمال کیا جس میں لیزر یا جی پی ایس گائیڈڈ سسٹم ہوتے ہیں جو نہ صرف درست نشانہ لگاتے ہیں بلکہ حادثاتی نقصان کو کم کرتے ہیں۔
جس وقت حسن نصر اللہ کو نشانہ بنایا گیا اُس وقت وہاں ایک اور رہنما علی کرک بھی موجود تھے جن کی لاش حسن نصر اللہ کے ساتھ ملی۔
حزب اللہ نے اپنے رہنما کی شہادت کی تصدیق اسرائیلی دعوے کے کئی گھنٹوں بعد نماز فجر کے بعد کی۔
[ad_2]
Source link