[ad_1]
واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران فوری طور پر اسرائیل پر بلیسٹک میزائل حملے کی تیاری کر رہا ہے اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس طرح کے حملے کے ایران پر سنگین نتائج ہوں گے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکا کو ایسے اشارے ملے ہیں کہ ایران فوری طور پر اسرائیل کے خلاف بلیسٹک میرائل حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس حملے کے خلاف اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے دفاعی تیاریوں میں فعال انداز میں تعاون کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل پر ایران کی جانب سے کسی قسم کے براہ راست فوجی حملے سے ایران پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے لبنان میں حملے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ایران کے حوالے سے سخت کا ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اسرائیل کے دفاع کے لیے اس سے قبل رواں برس اپریل میں شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بعد امریکا اور مغربی اتحاد اس وقت سامنے آئے تھے جب ایران نے اسرائیل پر بیک وقت میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔
دوسری جانب ایران نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت پر کہا تھا کہ اس شہادت سے اسرائیل کی تباہی ہوگی تاہم ایران کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی فوج لبنان نہیں بھیجی جا رہی ہے۔
ادھر اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا ہو اور مستقبل میں جب ایران آزاد ہوگا تو وہ وقت لوگوں کی سوچ سے زیادہ قریب ہے۔
امریکا نے حسن نصراللہ کی شہادت پر خطے میں جنگ بندی پر زور دیا اور سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔
انٹونی بلنکن نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں مراکش کے ہم منصب نصری بوریتا کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ امریکا اسرائیل کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔
واشنگٹن نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنی فوج کی تعداد میں چند ہزار کا اضافہ کر رہا ہے اور نئی یونٹس لے کر آر ہے ہیں اور پہلے سے موجود فوج کی مدت میں توسیع کر رہے ہیں۔
پینٹاگون نے بیان میں کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگی طیاروں کی مزید کھیپ بھی تعینات کی جا رہی ہے۔
[ad_2]
Source link