88

کیا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے قابل ہے؟

[ad_1]

ایران پر اسرائیلی حملے میں کامیابی کے امکانات بہت کم اور خطرات زیادہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایران پر اسرائیلی حملے میں کامیابی کے امکانات بہت کم اور خطرات زیادہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ خبریں تو مسلسل آرہی ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ناگزیر ہوگئی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست امریکا گو یہ بات دہرا رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے لیکن ایران کے جوہری اثاثوں پر حملہ کوئی عقلمندی نہیں ہوگی۔

یہاں امریکی صدر جوبائیڈن کے اس بیان سے یہ تاثر واضح ہے کہ امریکا نہیں چاہتا کہ اسرائیل ایران کے ساتھ براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اپنے بیانات اور اقدامات سے ایک ایسے ضدی اور بدتمیز بچے کی صورت اختیار کرچکے ہیں جس کو اپنے سرپرستوں کی کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ تو ہے وہ صورتحال جس کو امریکا دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب رہا، یہاں تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔

ان تمام لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب غزہ پر اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کیا اور اس دہشتگردی کو پانچ ماہ گزر گئے تو امریکی صدر جوبائیڈن نے جنگ بندی کا ایک فارمولا پیش کیا جو دیکھنے میں قابل قبول محسوس ہورہا تھا، تاہم یہ جنگ بندی کا ایک ایسا راستہ تھا جس کی منزل غزہ میں جنگ کا اختتام نہیں بلکہ صہیونی ریاست کو حتمی کامیابی و نتیجے کی طرف تیزی سے بڑھانا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسرائیلی فوج نے جب رفح میں زمینی آپریشن شروع کیا تو امریکا کی مخالفت سامنے آئی اور کہا جانے لگا کہ اتنا بڑا اور اتنے بڑے رقبے پر زمینی آپریشن اسرائیلی فوج کے اکیلے بس کی بات نہیں۔ تاہم یہ آپریشن کیا گیا اور اس میں صہیونی ریاست کو اپنے سب سے بڑے سرپرست اور اتحادی کی عملی مدد شامل تھی۔

یہاں ایران پر حملے کے حوالے سے امریکا ایک بار پھر وہی چال چل رہا ہے جو اس سے پہلے چلی گئی تھی۔ امریکا کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے ایک سینئر رکن نے ’’اسکائی نیوز عربیہ‘‘ کو بتایا کہ اسرائیل کے پاس ایران میں جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کےلیے درکار صلاحیتیں موجود نہیں۔ اس طرح کی کارروائی کےلیے جو فضائی صلاحیتیں درکار ہیں وہ صرف واشنگٹن کے پاس ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق اس طرح کی تنصیبات پر بمباری کےلیے ایسے وسائل درکار ہیں جو صرف اسرائیل کے قبضے میں نہیں، بلکہ اس کےلیے امریکا سے تعاون درکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایسی اطلاعات ہیں جن کے مطابق جلد ہی ایران کے خلاف اسرائیل کا جارحانہ ردعمل سامنے آئے گا۔ پینٹاگون نے کہا کہ ’’اسرائیل کو ایران کے حملوں کا جواب دینے کا حق ہے، لیکن ہم اس بات کو یقینی بنانے کےلیے اس کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں کہ اس کا ردعمل وسیع پیمانے پر جنگ کا باعث نہ بنے۔‘‘

اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل پر 200 سے زائد بلیسٹک میزائلوں کے ساتھ غیر معمولی حملے کے بعد، اسرائیل میں بہت سی آوازیں فیصلہ کن فوجی ردعمل کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا امکان بھی شامل ہے۔ فنانشل ٹائمز کی طرف سے کیے گئے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کارروائی ان سب سے پیچیدہ فوجی چیلنجوں میں سے ایک ہوگی، جن کا اسرائیل نے ایک طویل عرصے میں سامنا کیا ہے، جس میں امریکی حمایت کے بغیر کامیابی کے امکانات کم بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد اس حملے میں امریکی حمایت کا جواب نہ کی صورت میں مختصر اور واضح تھا۔ جوبائیڈن کا یہ بیان آزادانہ کارروائی کےلیے کسی بھی اسرائیلی منصوبہ بندی میں ایک اہم رکاوٹ ہے، کیونکہ امریکی حمایت کے بغیر خطرات اور چیلنجز ڈرامائی طور پر شدت اختیار کرجائیں گے، جو اسرائیل کے قابو میں نہیں ہوں گے۔

یہاں میں ایران پر اسرائیل کے جوہری حملے کو امریکا کی شراکت کے بغیر ناممکن سمجھتا ہوں، کیونکہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ اسرائیلی فضائیہ کےلیے پیچیدہ لاجسٹک چیلنجز کا ایک سلسلہ ہے جس میں ایک نہیں کئی چیلنجز شامل ہیں۔

پہلا چیلنج وسیع فاصلہ ہے۔ اسرائیل اور ایران میں جوہری تنصیبات کے درمیان فاصلہ ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے اور اس کے درمیان سعودی عرب، اردن، عراق، شام اور ممکنہ طور پر ترکی سمیت کئی دیگر ممالک کی فضائی حدود کو عبور کرنا ہوگا اور ایران پر اسرائیلی حملے کےلیے یقیناً یہ ممالک اس لیے بھی راضی نہیں ہیں کیونکہ ایران کی جڑیں اردگرد کے مسلم ممالک میں گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایران پر ممکنہ حملے کا ردعمل عوامی سطح پر شدید ہوسکتا ہے جس کا کوئی بھی ملک اس حالت میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایران پر حملے کی صورت میں ان میں سے کوئی بھی ملک اسرائیلی طیاروں کا سراغ لگا سکتا ہے اور ایران کو خبردار کرسکتا ہے، جس سے اُسے دفاع کےلیے تیاری کے ساتھ جارحانہ حملہ کرنے کا بھی وقت مل سکتا ہے۔

دوسرا چیلنج لڑاکا طیاروں میں ایندھن کا ہے۔ اہداف اور پیچھے کی طرف طویل پرواز کےلیے فضائیہ کی فضائی ایندھن بھرنے کی صلاحیتوں کے مکمل استعمال کی ضرورت ہوگی۔ امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق غلطیوں یا غیر متوقع تاخیر کےلیے کوئی آپشن نہیں ہوگا کہ ایک چھوٹی تکنیکی خرابی یا موسم میں تبدیلی پورے آپریشن اور پائلٹوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور آپریشن ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ایک اور بڑا چیلنج ایرانی فضائی دفاع سے نمٹنا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات جدید فضائی دفاعی نظام سے محفوظ ہیں، اور حالیہ چند روز قبل روس نے ایران کو دنیا کے جدید ترین دفاعی نظاموں سے ایک ایس 400 بھی فراہم کیا ہے جس نے ایران کی فضائی دفاعی نظام کی صلاحیت میں غیرمعمولی اضافہ کردیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لڑاکا طیاروں کو آپریشن مکمل کرنے کےلیے قریبی حفاظت کی ضرورت ہوگی۔ ایران کے جوہری اثاثوں کو نشانہ بنانے کے اس حساس نوعیت کے آپریشن کےلیے تقریباً 100 طیاروں کی ضرورت ہوگی جو لڑاکا طیاروں کی ایک بڑی تعداد ہے، جو اسرائیل کو ایران کے کسی بھی جوابی حملے کےلیے درکار ہوگی۔

ان تمام چیلنجز پر اگر صہیونی ریاست کسی نہ کسی طرح قابو پا بھی لیتی ہے تو بھی اس کے سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ یعنی ان جوہری تنصیبات کی تباہی ہے۔ ایران کی یورینیم کی افزودگی کی دو تنصیبات اس قدر بہترین انداز سے محفوظ کی گئی ہیں کہ اسرائیل کے پاس موجود اسلحے سے فضا سے اس پر حملہ قریب قریب ناممکن ہے۔

برطانیہ کے معروف اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اولی ہینونن جو ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی اور اسے محدود کرنے کےلیے ایجنسی کی کوششوں کے نگران بھی رہ چکے ہیں، انھوں نے بتایا ہے کہ خلیج فارس کے ساحل پر واقع صوبہ بوشہر میں زیر زمین انتہائی گہرائی میں قائم ہے جس کو مضبوط چٹانوں اور کنکریٹ کی تہوں سے محفوظ کیا گیا ہے، جس کو ایک بڑے پہاڑ کی گہرائی میں بنایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو فضا سے تباہ کرنا ممکن نہیں۔ اس طرح کی تنصیبات کو تباہ کرنے کےلیے خصوصی بم کی ضرورت ہوتی ہے جو دسیوں میٹر گہری چٹانوں اور کنکریٹ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد پھٹ سکے اور اسرائیل کے پاس اس قسم کی اتنی گہرائی میں گھسنے والے بم نہیں ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ واحد غیر روایتی ہتھیار ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہے وہ GBU-57A/B Massive Ordnance Penetrator ہے۔ یہ 6 میٹر لمبا اور 14 ٹن وزنی گائیڈڈ میزائیل ہے جو پھٹنے سے پہلے 60 میٹر تک گہرائی میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اسرائیل کے پاس اس ہتھیار تک رسائی ہے یا اسے استعمال کرنے کی صلاحیت ہے اور اگر اسرائیل اس کو حاصل کربھی لیتا ہے تو بھی اسرائیل کے موجودہ لڑاکا طیارے (F-15، F-16 اور F-35) اپنے سائز اور وزن کی وجہ سے انہیں لے جانے کے قابل نہیں۔

اسرائیلی وزارت دفاع کے ایک سابق محقق کا دعویٰ ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل B-2 اسپرٹ جیسا امریکی اسٹرٹیجک بمبار لڑاکا طیارہ حاصل کرسکے گا، جو اس طرح کے بھاری بم گرانے کےلیے درکار ہے۔

ایرانی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی میں، اسرائیل متبادل آپشنز پر غور کرسکتا ہے، لیکن یہ بھی محدود آپشنز ہیں۔ اسرائیل خفیہ اور سائبر کارروائیوں کے ذریعے تنصیبات کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے، جیسا کہ اسرائیل ماضی میں اس علاقے میں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ 2010 میں، اسرائیل اور امریکا نے مبینہ طور پر Stuxnet وائرس کا استعمال کرتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام کو مؤخر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 2021 میں، ایک منصوبہ بند بجلی کی ناکامی نے Natanz کے اندرونی پاور سسٹم کو نقصان پہنچایا، لیکن یہ اقدامات ایرانی پروگرام کو روکنے میں ناکام رہے۔

تمام چیلنجوں اور حدود کی روشنی میں، ماہرین ایک واضح نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایران کی اہم جوہری تنصیبات کو نمایاں طور پر نقصان پہنچانے کےلیے جس پیمانے کی طاقت درکار ہے، ’’اگر براہ راست شمولیت نہیں تو وسیع امریکی حمایت کی ضرورت ہوگی‘‘ اور فی الحال امریکا اپنے ملک میں ہونے والے انتخابات، روس اور یوکرین کی جنگ، چین سے اقتصادی اختلافات اور مشرقی وسطیٰ میں اس کے متعدد اڈوں میں موجود ہزاروں فوجیوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اسرائیل کےلیے تمام صلاحیتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور امریکی حمایت کے بغیر، اسرائیل کے سامنے آپشنز انتہائی محدود ہیں۔ ایک آزادانہ حملے میں کامیابی کے امکانات بہت کم اور خطرات بہت زیادہ ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں