33

صہیونی ریاست میں خوف کی فضا

ایک خوف ہے کہ نجانے حزب یا ایران کی جانب سے کب میزائل آجائیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک خوف ہے کہ نجانے حزب یا ایران کی جانب سے کب میزائل آجائیں۔ (فوٹو: فائل)

نک بیک برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے ہیں اور وہ اِس وقت تل ابیب میں ہی موجود تھے جب ایرانی میزائل اسرائیل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ آسمان پہ نارنجی روشنی نے اسرائیل کے اندر یقینی طور پر کچھ تو اثر ڈالا ہے۔ ایک عینی شاہد کا حوالہ دیتے ہوئے نک بیک نے کہا کہ وہ کافی عرصے سے آبادی سے دور رہ رہے ہیں کیوں کہ ایک خوف ہے کہ نجانے حزب یا ایران کی جانب سے کب میزائل آجائیں۔

بلاشبہ صہیونی ریاست طاقت، ٹیکنالوجی، وسائل اور عالمی تعلقات کے حوالے سے بہت آگے ہے لیکن خوف کی فضا قائم ہوجائے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی ٹوٹتے دیر نہیں لگتی۔ اس حقیقت کا ادراک صہیونی دماغوں کو جلد سے جلد کرنا ہوگا اور تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ دو ریاستی حل یقینی طور پر بہت سے حلقوں کےلیے قابل قبول ہوگا اور بہت سوں کےلیے ناقابل قبول۔ لیکن بظاہر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا وجود ہی خطے کے امن کےلیے اہم ہوگا۔

مذکورہ پروگرام میں برطانوی نشریاتی ادارے کی اینکر نے ایک اور مہمان ’فرساد مقصد‘، جو کہ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ واشنگٹن سے وابستہ ہیں، سے سوال کیا تو ان کا جواب بھی قابل غور تھا کہ امریکا کسی طور پر آنے والے انتخابات سے قبل یہ نہیں چاہے گا کہ مشرقِ وسطیٰ ایک بڑی جنگ کی طرف جائے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جنگ سے امریکا کیونکر چاہے گا کہ تیل کی قیمت دو سو ڈالر فی بیرل تک جائے۔ اینکر کی حیرانی کے باوجود وہ اس بات پر قائم رہے۔

امریکا اپنے مفادات کو تحفظ دیے بنا کسی بھی جنگ میں الجھنے سے نہ صرف گریز کرے گا بلکہ حتیٰ الوسع اس سے دوری بنائے رکھنے کی کوشش بھی کرے گا۔ آنے والے انتخابات میں جو بائیڈن انتطامیہ ویسے ہی دباؤ کا شکار ہے اور ٹرمپ تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں توانائی کا کوئی بحران پیدا ہو یا پھر معیشت کو کوئی جنگ ہلا کر رکھ دے، ایسا جو بائیڈن انتظامیہ ہرگز نہیں چاہے گی۔

امریکا کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس جنگ کو مختصر ترین کرنے کی کوشش اس لیے کریں گے کہ چین کے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ ایران کے ساتھ چین کے معاہدے، بھارت کے چاہ بہار بندرگاہ سے مفادات، روس کےلیے شام کی جنگ کے بعد خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ، یہ تمام عوامل ہی اپنی جگہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ یورپی طاقتیں بھی بظاہر اسرائیل کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ لیکن کیا ان کی معیشت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا نہ صرف حصہ بنیں بلکہ اسرائیل کی مدد بھی کریں؟ کہنے کو یہ ہوسکتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہونا بہت مشکل ہے۔

بات کچھ تلخ ضرور ہے لیکن اس پورے قصے میں بنیادی طور پر تمام فریقین کو کچھ فیس سیونگ کی بھی ضرورت تھی، جو کم و بیش سب کو اس وقت مل چکی ہے۔ اور عالمی طاقتوں کے مفاد میں اب یہی ہے کہ وہ اس جنگ کے بھڑکتے شعلوں پر کچھ پانی پھینکنے کا بندوبست کریں۔ اس حوالے سے آنے والے دنوں میں اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کا کردار یقینی طور پر بہت اہم ہوگا۔ سعودی عرب ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا علاقائی قد کم کر رہا ہے۔ خطے کے ممالک کے ساتھ بیٹھ کر اگر سعودی عرب اس مسئلے کے حل کی کوششیں کرتا ہے تو وہ اپنی ساکھ کی ڈوبتی ناؤ کو کچھ سنبھالا دے سکتا ہے اور اس بیٹھنے کا اثر حوثی گروپ پر بھی پڑے گا اور سعودی عرب کےلیے مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔

ایران کےلیے یہ معنی نہیں رکھتا کہ اسرائیل پر حملے سے ہلاکتیں ہوئیں یا نہیں۔ مقصد پورا ہوچکا ہے کہ لائحہ عمل ظاہر کیا گیا کہ ہم کارروائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ملک کے اندر بھی مفادات حاصل ہوں گے۔ دو ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلہ اور براہ راست بارڈر نہ ہونے کے باوجود میزائل اسرائیل پہنچا دیا، یہی مستقبل کےلیے واضح پیغام ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا کی طرف سے ایک بہت معنی خیز ردعمل اس حملے کے بعد آیا کہ خطے میں امریکی مفادات پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور نہ ہی امریکی فوجی اس کا نشانہ تھے۔ یعنی امریکا جانتا ہے کہ حملے کا بنیادی مقصد اسرائیل پر اپنی اہمیت واضح کرنا تھا اور جو شاید ایران کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ بے پناہ وسائل کے باوجود یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسرائیل جو آبادی کے لحاظ سے یا افرادی قوت کے لحاظ سے اعدادوشمار میں بڑا ملک نہیں، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کتنا عرصہ جنگ جھیلی جاسکتی ہے؟ ایک طرف ایران، دوسری طرف حزب، تیسری جانب حوثی اور اس کے علاوہ عراقی گروپس۔ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ جو اگر ایران کےلیے مشکلات کا باعث ہوگا تو یہ جنگ اسرائیل کے لیے بھی خطرہ لائے گی۔ تابوت سیاست کےلیے تو کامیابی کی نوید لا سکتے ہیں لیکن ریاست میں بسنے والے افراد کا حوصلہ توڑ دیتے ہیں۔ اس لیے آج نہیں تو کل اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔

ایک طویل جنگ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جنگ کی وجہ سے تمام فریقین پاور شیئرنگ اور کچھ لو، کچھ دو کی صورت میں کامیابی سمیٹنے کے دعوے کرسکتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو ایک ایسا میدان میسر ہے کہ جہاں وہ اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کےلیے بڑھکیں مار سکتے ہیں۔ علاقائی اکائیاں بھی اپنی دھاک بٹھانے کےلیے مذاکرات کی ایسی میوزیکل چیئر سجانے میں کوشاں ہوسکتی ہیں کہ کچھ حاصل یقینی طور پر ان کو بھی ہوجائے گا۔ اور خطے میں سب اپنی اپنی پراکسیز کی پیٹھ بھی تھپتھپا سکتے ہیں کہ جنگ کے چورن سے جہاں عوام مرتے ہیں، وہاں خواص کا فائدہ بھی تو ہوتا ہے۔

کوئی شک نہیں کہ اپنی دھاک اسرائیل نے بٹھا دی لبنان میں اپنے مقصد کو پورا کرکے۔ لیکن کیا یہ سلسلہ یہاں رک جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا ہے 1992 میں عباس موسوی کی شہادت سے ہی یہ سلسلہ رک جاتا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے اور قرائن سے ظاہر ہے کہ نعیم قاسم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ثابت ہوں گے اور ہاشم صفی الدین بھی۔ جنگ کا چورن بک ضرور رہا ہے لیکن اس جنگ سے جان نہ چھڑائی گئی تو اسی چورن سے عالمی طاقتوں کو بدہضمی بھی ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں