[ad_1]
غزہ: غزہ کے الاقصی اسپتال پر اسرائیلی بمباری میں زندہ جلنے والے فلسطینی لڑکے شعبان کے والد نے اس خوفناک رات کا واقعہ سنادیا۔
والد نے بتایا کہ 19 سالہ شعبان زخموں کے علاج کےلیے اسپتال میں داخل تھے۔ وہ ایک مسجد میں تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ اسرائیل نے اس پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں 25 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے لیکن اس واقعے میں شعبان کو معمولی زخم آئے اور وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ زخموں کے علاج کےلیے وہ الاقصی اسپتال گئے جہاں وہ اور ان کے اہل خانہ احاطے میں لگائے گئے خیموں میں موجود تھے کہ رات گئے اسرائیل نے اسپتال پر بھی بمباری کردی۔
والد نے مڈل ایسٹ آئی سے گفتگو کرتے ہوئے اس خوفناک رات کا قصہ سنایا کہ میں نے اپنے بچے سے کہا مجھے معاف کردینا، میں تمہاری مدد نہ کرسکا، میرے سیدھے ہاتھ میں آگ لگ گئی تھی اور میں اپنے باقی بچوں کو بچانے کی کوشش کررہا تھا، کہ چند ہی سیکنڈز میں آگ کے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے سوتے ہوئے بیوی بچے، خیمہ سب کچھ جلنے لگا، اور انہیں ہلنے کا موقع بھی نہ ملا، دھماکے کی شدت سے میں خیمے سے باہر جاگرا لیکن مجھے کوئی چوٹیں نہیں آئیں، پھر میں نے اپنے بیوی بچوں کو دیکھا تو وہ آگ کے شعلوں میں گھرے تھے، میری اوسان خطا ہوگئے کہ پہلے کسے بچاؤں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے اور بیٹی کو بچایا، شعبان اپنے بستر پر زخمی پڑا تھا اور ایک ہاتھ ہوا میں بلند تھا، میں نے سوچا شعبان بیدار ہوگیا ہے اور وہ خود کو بچالے گا۔
[ad_2]
Source link