[ad_1]
یہ سال 1996 کا آغاز ہے۔ تعلیمی وقت گزار چکے۔ اب نہ کوئی کلاس فیلو ہے اور نہ جامعہ جانے کی کوئی وجہ۔ فارمیسی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وقت کے اشارے پر زندگی کے ایام گزار رہے تھے۔ کئی بیرون ممالک سفر عدم دلچسپی یا دل کی دھیمی آواز پر ترک کرچکے تھے۔ جہاں جانے کی کچھ خواہش تھی وہاں کےلیے بھی رسمی کارروائی کرکے سب کچھ غیب پر چھوڑ رکھا تھا۔ اعتماد بلا کا تھا۔ دھڑا دھڑ نوکریوں کی پیشکش ہورہی تھی۔ جہاں درخواست دیتے وہ بلا لیتے، گفتگو کے بعد نوکری کرنے کا کہتے۔ خیر قصہ مختصر ایک فائیو اسٹار ہوٹل نما اسپتال کی عمارت میں ہم نے پہلے ٹرینی فارماسسٹ کی حیثیت سے داخل ہونے کی پیشکش قبول کرلی۔
زیر تربیت ماہر ادویہ کی حیثیت میں نظرثانی کےلیے پہنچنے والا پہلا نسخہ ہو یا پہلی پیشہ ورانہ طبی سائنسی گفتگو کی محفل ہو، درحقیقت ادویاتی دنیا میں ہمیں محسوس ہونے والا پہلا چیلنج جسم کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھنے والی دوا سائیکلوسپورن تھی۔ حساس مریضوں کےلیے ایک پیچیدہ دوا۔
ناروے میں واقع سینڈوز کمپنی کی تجربہ گاہ میں تحقیق پر مامور سائنسدانوں کے ہاتھوں کیچڑ میں موجود فنگس (ٹولیپوکلیڈیم انفلیٹیم) سے 1970 میں دریافت ہونے والا سائیکلوسپورن اعضا کے پیوند کاری کی دنیا میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے اور تہلکہ خیز کامیابیوں کی داستان رکھتا ہے۔ گردوں کی پیوند کاری اور ڈاکٹروں کو نئی پہچان دینے میں اس دوا کا کردار لافانی ہے۔ اس کڈنی سینٹر میں ڈائیلسز ہوا کرتا تھا۔ معصوم بے بس زندگی کے ہاتھوں یرغمال مریض مستقل آتے، میں کبھی کسی کسی سے گفتگو کرتا، ان کی فائل پڑھتا۔ اللہ کی پناہ! کچھ تو دوا کے شکار تھے۔ معلومات نہ ہونے کے ہولناک نتائج بھگت رہے تھے۔
لکھنا مجھے سائیکلوسپورن پر ہے اور خیال کی لہریں گہرائیوں میں کھوتی چلی جاتی ہیں۔ جب بھی کسی کے گردے تبدیل کرکے دوسرے لگائے جاتے ہیں تو وصول کرنے والا دوسرے کے گردے کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف کام شروع کردیتا ہے۔ یہ جسم کا خودکار حفاظتی نظام ہے۔
یہ معمولی سی دوا سائیکلوسپورن اس مزاحمت کو قابو میں رکھتی ہے اور اس طرح یہ دوا مستقل کھانی ہوتی ہے۔ دو عددی ملی گرام والی اس دوا کی خوراک کا تعین بہت ہی نازک ہے۔ کم ہوگئی تو جسم نئے گردے کو ریجیکٹ کردے گا اور زیادہ ہوئی تو جسم و ماحول میں موجود خاموش مفادپرست جراثیم چیرپھاڑ کردیں گے۔ 1983 میں دوا کا محلول آیا تھا اور 1990 میں دوا کیپسول کی صورت آئی تھی۔ 1995 میں اس کیپسول میں کچھ اضافی ترامیم کرکے آسان بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھیں۔ شاید یہ کمپنی کے تجارتی حربے ہوں کہ کوئی دوسرا اس دوا کو نہ لا سکے اور وہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرسکیں۔
مجھے یاد ہے کہ بچگانہ ذہن کے ساتھ ہم اس کی کائنیٹکس پڑھنے و سمجھنے کےلیے بے تاب رہے۔ کمپنی کی معلومات کمپنی کے مفاد میں دانستاً پیچیدگی سے لکھی گئی تھیں۔ خیر ہم بھی اچھی خاصی دستیاب معلومات جمع کرچکے تھے۔ جہاں کہیں اس موضوع پر ڈاکٹروں کی گفتگو ہوتی، ہم بھی وہاں اس ہوٹل میں مدعو ہوتے، سوال جواب کرتے۔ اکثر لوگ ڈاکٹر سمجھتے۔ پھر ہم فخر سے بتاتے کہ ہم ڈاکٹر نہیں فارماسسٹ ہیں۔
بعد ازاں کوریا سے بننے والی اس دوا کی پہلی جنیرک پاکستان میں منظور ہوئی۔ اس کی اسٹڈیز پر خوب گفتگو ہوئی۔ بڑی کامیابی سے یہاں چلی۔ دلچسپ اور اہم ترین بات یہ تھی کہ پہلی کمپنی سینڈوز اس کو سیب کے رس کے ساتھ استعمال کرنے کا کہتی جبکہ امریکا میں منظور ہونے والی جنیرک چاکلیٹ ملک کے ساتھ ۔ وہاں کا دل خراش واقعہ سپرد تاریخ ہوا کہ چار سالہ معصوم بچہ اور چھ سالہ معصوم بچی کا جسم اس جنیرک دوا کے لینے پر جھٹکا کھانے لگا۔ کتنا ظلم تھا کہ درد کے مارے بچے دوا کی وجہ سے بجلی کے جھٹکے لے رہے ہیں۔ یہ کچھ نہیں بغیر سوچے سمجھے ایک لاٹھی سے سب کو ہانکنے والی بات تھی۔
یہ پیچیدہ دوا تھی، اس کو جانچنے کےلیے دستیاب پیمانہ کافی نہ تھا۔ یہی چند لائنیں لکھنا چاہ رہا تھا۔ شاید کہ ادویہ ساز احباب اس سے کچھ سمجھ جائیں۔ اس باپ سے پوچھیں جس نے ہاتھ سے دوا پلائی ہو اور اس ہی کی گود میں بچہ دوا پینے کے بعد تڑپ رہا ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link