[ad_1]
(تحریر: سہیل یعقوب)
تغیر زندگی کی واحد حقیقت ہے۔ کاروباری اداروں کی دنیا (کارپوریٹ ورلڈ) میں کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی مستقل حقیقت ہے تو وہ تغیر ہی ہے۔ تغیر یہ یے کہ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔ یہ جاننے کے باوجود ہم چیزوں کو جامد و ساکت رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم تبدیلی سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور عموماً اس کو قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔
ہم تبدیلی سے کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں؟ ہم تبدیلی سے اس لیے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے تاکہ ہم خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکیں۔ اس کےلیے ہمیں نئے ہنر سیکھنے پڑتے ہیں اور خود کو نئے ماحول میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ ہمیں چونکہ پرانے ماحول کی عادت ہوتی ہے اور وہ ہمیں آرام دہ بھی لگتا ہے تو ہم خود کو نئے ہنر اور ماحول کی تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی ہمیں تبدیلی میں فائدہ نظر آتا ہے ہم خود کو فوراً تبدیل کرلیتے ہیں اور نئی چیز سیکھنے کےلیے فوراً آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال متحرک فون اور اس کی دیگر سہولیات ہیں۔ آج گھر میں کام کرنے والی ماسی بھی واٹس ایپ استعمال کرتی ہے کیونکہ اس کو علم ہے کہ اس میں سہولت بھی ہے اور بچت بھی۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا سفر یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کس سمت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ترقی کی اونچی فضاؤں کی طرف گامزن ہے یا پاتال کی گھاٹیوں کی طرف گرنے کا عمل جاری ہے۔
بدقسمتی سے اقدار کے معاملے میں ہمارے معاشرے نے الٹی سمت سفر شروع کیا جو آج اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ ویسے بھی اقدار کا ماخذ عام طور پر یا تو مذہب ہوتا ہے یا سماجی روایات ہوتی ہیں۔ آج بھی ہماری درسی کتابوں میں درج ہے کہ کاروبار کرتے ہوئے سچ بولنا چاہیے اور صارف کو تمام خوبیاں اور خامیاں بیان کرنی چاہئیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر آج کوئی اس پر عمل کرے تو معاشرہ اس کو کن ناموں سے بلائے گا؟ سب لوگ اسے گھامڑ اور بدھو قرار دیں گے اور جو کوئی دروغ گوئی اور چاپلوسی سے اپنا مال فروخت کرے تو معاشرہ اسے چالاک اور سمجھدار قرار دے گا۔ ہم میں سے ہر کوئی کیا کہلوانا پسند کرے گا؟ جواب ہم سب کو معلوم ہے۔ جب بھی کسی معاشرے کی کتابی اور عملی اقدار میں تضاد ہوگا تو صرف اور صرف ایک منافق معاشرہ تشکیل پائے گا جو آج ہم سب کے سامنے ہے۔
ایک قصہ سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت مشہور ہوا کہ کسی ملک سے ایک تبلیغی جماعت افریقہ کے کسی ملک میں گئی ہوئی تھی۔ جب نماز کا وقت ہوا تو جن لوگوں کا وضو نہیں تھا وہ وضو کرنے باہر آئے اور واپسی پر اپنے جوتے، چپل یا سینڈل ساتھ لے کر مسجد میں آگئے۔ ایک مقامی بزرگ یہ سب دیکھ رہے تھے تو انھوں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ یہ اپنے جوتے کیوں مسجد میں لے کر آئے ہیں، تو ان سے ایک صاحب نے کہا کہ باہر رہتے تو کوئی لے کر جاسکتا تھا۔ ان صاحب نے پھر پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کی مساجد کے باہر سے لوگوں کے جوتے اور چپل چوری ہوجاتے ہیں؟ اس پر جماعت کے ایک صاحب نے کہا کہ ہاں بدقسمتی سے کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے۔ اس پر اس مقامی نے کہا کہ پھر تو آپ لوگوں کو پہلے اپنے ملک میں تبلیغ کرنی چاہیے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب ہمارے ہی معاشرے میں لوگ فخریہ کہتے تھے کہ ہم غریب ضرور ہیں لیکن عزت دار ہیں۔ آج غریب اور عزت دار ہمارے معاشرے میں دو متضاد الفاظ ہوگئے ہیں۔ معاشرے میں جس کے پاس پیسہ ہو وہی عزت دار ہے، بلکہ سب سے ہوشیار اور عقلمند بھی وہی ہے اور کسی میں جرأت نہیں کہ اس کی دولت کے ذرائع کے بارے میں سوال پوچھے۔ معاشرے میں جو جتنا جھوٹا، مکر و فریب میں ماہر ہے، وہ اتنا بڑا کاروباری ہے۔ معاشرے نے جھوٹ کو ضرورت، مکر و فریب کو سیاست اور منافقت کو مصلحت کا نام دے دیا ہے۔
نقلی اور جعلی چیزوں کےلیے بھی ہمارے ملک میں ایک نام ہے۔ اس پر ایک سچا واقعہ اور اختتام۔ یہ کافی پرانی بات ہے کہ ایک دن میں کسی دکان پر گھڑیاں دیکھ رہا تھا اور مجھے ایک گھڑی پسند آئی۔ جب میں نے قیمت پوچھی تو قیمت ناقابل یقین حد تک کم بتائی گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ دکاندار نے میرے چہرے پر حیرت دیکھ کر کہا کہ یہ ’’فرسٹ کاپی‘‘ ہے اور کسی کا باپ بھی نہیں پکڑ سکتا کہ یہ اصلی نہیں ہے۔ میں نے دکاندار کو گھڑی واپس کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس کو فرسٹ کاپی کہتے ہیں میں اسے نقلی کہتا ہوں۔ آج فرسٹ کاپی مکمل طور پر اس معاشرے میں چھا گئی ہے۔ کبھی کبھی تو اس معاشرے کو دیکھ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے یا یہ ان کی بھی کاپی ہے۔ کون سی والی کاپی، پہلی، دوسری یا اس سے بھی آگے کی، یہ میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔
[ad_2]
Source link