[ad_1]
ایران میں ایک بڑے حملے کےلیے اسرائیل کی سیکیورٹی تیاریاں اور ایرانی جوابی ردعمل ان دنوں نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ خاص طور پر گولانی فوجی اڈے پر ہونے والے ہلاکت خیز ڈرون حملے کے بعد، جس میں متعدد اسرائیلی فوجی جہنم واصل ہوئے۔
اسرائیل کو امریکا کی جانب سے ہر طرح کی امداد اور حمایت غیر معمولی انداز میں مل رہی ہے، بشمول بیلسٹک میزائلوں کے خلاف فضائی دفاعی نظام کا جدید ترین اپ گریڈڈ سسٹم THAAD، جس نے اسرائیل پر ایک ہمہ گیر جنگ کو روکنے کےلیے اپنی کوششوں کو وسعت دیہے ۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے اپنی فوجی موجودگی اور پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج کی تعیناتی میں زبردست اضافہ کیا۔
افواج کی اس بڑے پیمانے پر کمک میں، دوسری چیزوں کے علاوہ، حرکت پذیر جوہری آبدوزیں اور جنگی جہاز، طیارہ بردار بحری جہاز، (F22 قسم کے) جدید لڑاکا طیارے، نیز بحرہند، بحیرہ احمر، خلیج عمان اور خلیج فارس میں اسٹرٹیجک بمبار طیارے شامل ہیں۔ امریکا نے غیر قانونی صہیونی ریاست کی مدد کےلیے پہنچادیے ہیں۔
امریکا کی جانب سے اس بڑے پیمانے پر فوجی امداد کے بعد خطے میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہے، جو ایران اور اس کے شہریوں کو متاثر کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تہران میں حکومت کے سربراہان کے اثاثوں اور تزویراتی مفادات، بشمول ایرانی جوہری یا تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بارے میں شدید دباؤ اور خدشات میں بھی اضافہ کررہی ہے۔ امریکا خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس، چین اور شمالی کوریا شراکت داروں سے ایران کی مدد کےلیے تیاریاں کررہے ہیں۔
چین نے حال ہی میں اسے ڈرونز، یو اے وی اور کروز میزائلوں سے تحفظ کے لیے ’’سائلنٹ ہنٹر‘‘ لیزر سسٹم منتقل کیا ہے۔ روس نے ایران کو الیکٹرانک وارفیئر سسٹم، جدید دفاعی نظام اینٹی ایئرکرافٹ (S400) فراہم کیا ہے اور لڑاکا طیارے (Sukhoi 35-Su) فراہم کرنے کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعے میں ماسکو، بیجنگ اور پیانگ یانگ کی موجودگی مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کی بدمعاشی کے باعث ہونے والے نقصان کو ایک عالمی جنگ کی جانب تیزی سے لیے جارہی ہے اور امریکا کو مشکل میں ڈالنے کےلیے روس، چین اور شمالی کوریا ایک صفحے پر آتے نظر آرہے ہیں۔ تینوں کی جانب سے اقدامات کا جائزہ لیں تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں بحیرہ عرب اور خلیج عمان میں گزشتہ مارچ کے دوران منعقد ہونے والی بڑے پیمانے پر بحری مشقیں بھی شامل ہیں، جس میں درجنوں چینی تباہ کن جہازوں اور جنگی جہازوں، روسی اٹیک کروزر اور ایرانی فریگیٹس نے مشترکہ حصہ لیا تھا۔ یہ اس صورتحال کی سنگینی کا ایک رخ ہے جو معنویت اور پیچیدہ سیکیورٹی اور جغرافیائی سیاسی مضمرات سے بھرپور ہے۔
امریکا اسرائیل کی دہشتگردی کو اس کا حق دفاع قرار دیتا ہے جو کہ اس کی مجبوری ہے لیکن دوسری جانب چین خاص طور پر شمالی کوریا اور روس کےلیے اپنی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے کا، اقتصادی پابندیوں اور ہر ایک پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کو نظرانداز کرنے کا بہترین موقع ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ آمنے سامنے ہوں۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازعے میں اگر تیزی آتی ہے تو یہ ان تینوں ممالک کےلیے ایک بہترین موقع ہے کہ یہ تہران کے ساتھ امداد اور فوجی آپریشنل تعاون کا دائرہ بڑھائیں، سیکیورٹی اور تکنیکی تعلقات کو مضبوط بنائیں، سفارتی اور خاص طور پر اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کرکے ایک ایسا اتحاد بنائیں جو آنے والے وقتوں میں امریکا کی عالمی بدمعاشی کے خاتمے کی ابتدا ہوسکے۔
اس صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی کے بعد امریکا، اسرائیل اور اس کے اتحادی عرب اور خلیجی ممالک اور بنیاد پرست ممالک کے درمیان ایک ایسا اتحاد بنانے کی کوشش کررہا ہے جو عربوں کو یہ باور کراسکے کہ ایران ان کی سالمیت کےلیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر ابھی ایران کو نہیں روکا گیا تو یہ سعودی عرب، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن اور دیگر خلیجی ممالک جہاں بادشاہت نے اپنا تسلط عشروں سے قائم کیا ہے اس کو زوال آجائے گا۔
درحقیقت فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں جس طرح سے اسرائیل بے بس ہوا ہے اور طاقت کے بدترین استعمال اور ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل نہ تو اپنے یرغمالیوں کو حماس سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوسکا ہے اور نہ ہی لبنان اور غزہ سے راکٹوں کی بارش روک سکا ہے اور اس ناکامی اور عالمی ہزیمت کے باعث اب اسرائیل امریکا کی بھی سننے کو تیار نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ امریکا کو بھی نظر آرہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ براہ راست جنگ ہوتی ہے تو امریکا جو کہ یوکرین میں بری طرح ذلیل ہورہا ہے اور اس کی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ وہ ایک اور عظیم جنگ میں شامل ہو تو امریکا اس کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوگا لیکن امریکا میں موجود پریشر گروپ امریکی انتظامیہ کو اسرائیل کی ہر ممکن مدد کےلیے بے بس کرچکے ہیں تو اب امریکا کے پاس اسرائیل کی مدد کے سوا دوسرا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
امریکا اسرائیل کی فوجی امداد کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری جانب بیجنگ نے ایران کو درپردہ حمایت کا یقین دلایا ہوا ہے۔ امریکی ذہین دماغ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ بڑھتی ہوئی سیاسی – اقتصادی دشمنی اور بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تکنیکی – تجارتی تنازعہ، اور گہری نفرت جو کہ “axis of evil” کےلیے فائدہ مند ہوگی، وہیں یہ امریکی مفادات کو مشرقی وسطیٰ سے اکھاڑ پھینکنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
(“axis of evil” کی اصطلاح سب سے پہلے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 11 ستمبر کے حملے کے بعد 2002 میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کےلیے استعمال کی تھی، جس میں مبینہ طور پر دہشت گردی کی سرپرستی کی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو پھیلانے میں مدد کے تناظرمیں کی تھی)
جغرافیائی سیاسی اثرات ایک وسیع اسٹرٹیجک اور جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے، یہ پتہ چلتا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی – اقتصادی دشمنی اور بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تکنیکی – تجارتی تنازعہ، اور گہری نفرت ایول ایکسس کو تقویت دے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایول ایکسس یہ کوئی مربوط بلاک یا رسمی اتحاد نہیں ہے بلکہ سیاسی، عسکری یا اقتصادی طور پر ان ممالک کے درمیان کافی فرق ہے۔ مثال کے طور پر، چین کی جی ڈی پی، جو 2024 میں 18.53 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی، دیگر تمام ممالک کی مشترکہ جی ڈی پی سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، ممالک کے درمیان بنیادی کشیدگی موجود ہے، جیسے کہ چین سمیت ایشیا پر شمالی کوریا کے جوہری میزائلوں کا خطرہ سرفہرست ہے، اس کے باوجود اگر یہ ممالک امریکا کے خلاف ایک اعلانیہ اتحاد کرلیتے ہیں تو دنیا کی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ ایسی صورتحال میں بیجنگ کی حکومت کی قیادت میں اقتصادی تجارتی شراکت داری کو مرکزی محور کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ اگر ایران، چین، اور روس امریکا کے ساتھ اعلانیہ متحدہ ہوجاتے ہیں تو عالمی منظرنامے میں کیا تبدیلیاں آئیں گی، اس کی ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا۔
چین اس وقت ایران سے برآمد کردہ تقریباً 90 فیصد تیل حاصل کررہا ہے، جس کی کھپت 2023 میں یومیہ 1.35 ملین بیرل خام تیل تک پہنچ چکی ہے، روس نے یوکرین میں اپنی جنگی کوششوں کےلیے ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کی فراہمی پر خاصا انحصار کیا ہے۔ چین، روس اور ایران بین الاقوامی تنظیموں (جیسے برکس فورم اور ایس سی او تنظیم) میں شراکت دار ہیں، جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھانے، اور تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو گہرا کرنے کے مواقع کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے میں ایران کی شمولیت کی توسیع ہے، جو کہ ان دونوں ممالک کے درمیان 400 بلین ڈالر مالیت کی اسٹرٹیجک شراکت داری کے فریم ورک کے اندر ہے، جس پر مارچ 2021 میں دستخط ہوئے تھے۔ یہ اس اتحاد کے باعث تمام اقتصادی ترقی کے منصوبے اور بہت کچھ انہیں ان پر امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کو نظرانداز کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں SWIFT گلوبل کلیئرنگ سسٹم سے رابطہ منقطع کرنا اور متبادل مالیاتی میکانزم قائم کرنا، بشمول BRICS تنظیم کے ساتھ NDB بینک، جو پہلے ہی اداروں کے متبادل کے طور پر کام کررہا ہے، میں اپنا کردار ادا کرنا شامل ہے۔
یہاں ایک خطرہ جس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن پینٹاگون اور واشنگٹن میں انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے ان بے پناہ خطرات سے خبردار کیا ہے جن کا امریکا کو سامنا ہے ایک اور بڑا خطرہ یمن کے حوثی ہیں، جو غزہ میں اسرائیل کی دہشتگردی کو روکنے کےلیے بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی جہازوں کو براہ راست نشانہ بنارہے ہیں۔ امریکا کی قیادت میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا اور وہ ادارے جو تجارتی اور نقل و حمل کے روابط بھی تیار کرتے ہیں، حوثیوں کے خطرات کو سنگین خطرے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ایک جانب ایران، چین اور روس امریکا کے خلاف اتحاد کرلیتے ہیں اور دوسری جانب حوثی بحیرہ احمر کو ان ممالک کی حمایت سے بند کردیتے ہیں تو کیا آپ کو اندازہ ہے کہ مغربی ممالک میں کیا صورتحال ہوگی؟ بحیرہ احمر سے دنیا کے تیل کی 20 فیصد ترسیل ہوتی ہے۔
جولائی 2023 میں شائع ہونے والے PEW RESEARCH کے ایک عوامی رائے عامہ کے سروے سے ظاہر ہوا کہ جہاں 50 فیصد امریکی عوام کی نظر میں چین امریکا کےلیے حقیقی خطرہ ہے، صرف 17 فیصد امریکی روس کو اس کےلیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایرانی حکومت واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ کو براہ راست چیلنج کر رہی ہے اور بائیڈن انتظامیہ کی کمزوری کو مزید مضبوط کررہی ہے۔ یہ امریکا میں دور جدید کے سب سے سنگین اور انتہائی بحرانوں میں سے ایک ہے۔
امریکا ایک جانب اسرائیل کو اپنی حمایت کا یقین دلارہا ہے اور اس کی سالمیت کےلیے ایک ایسے بہادر کی طرح سامنے کھڑا ہے کہ اس کو کسی کا کوئی خوف نہیں ہے لیکن دوسری جانب اس کی حالت یہ ہے کہ کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح اس کو اس معرکے میں حصہ نہ لینا پڑے، کیونکہ ایک جانب امریکا میں موجود مضبوط یہودی لابی ہے کہ جس کے اختیار میں امریکا کی انتظامیہ ہے، تو دوسری جانب اسرائیل کےلیے کسی جنگ کا حصہ بننے کا مطلب امریکا کا اپنا زوال ہے، جس کا امریکا کے ذہین دماغوں کو بخوبی ادراک ہے۔
ایران کے ساتھ تنازعہ پورے مشرق وسطیٰ کو آگ لگادے گا جو جلد یا بدیر تیسری عالمی جنگ کا باعث بنے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link