(تحریر: رومیصہ ملک)
پنجابی کی کہاوت ہے ’’چار دناں دی زندگی اے کجھ کھا لئے پی لئے موج اڑا لئے‘‘ یا پہلے پیٹ پوجا فیر کم دوجا! ہمارا معاشرہ اس کہاوت کی چلتی پھرتی مثال ہے۔
شادی ہے تو کھانا، بیماری ہے تو ضروری ہے کھانا، مرنا ہے تو جنازے کے ہوتے ہی سب سے پہلا سوال کہاں ہے کھانا؟ ہماری اولین ترجیح صرف کھانا۔ ہر جگہ ہر حالت میں ضروری ہے کھانا۔ یہی صورتحال ہمارے تعلیمی اداروں کی بھی ہے جہاں کلاسوں سے زیادہ کالج، یونیورسٹیز کی کینٹین میں رش نظر آتا ہے۔
کھانا ہماری زندگی کا سب سے اہم جزو سمجھا جاتا ہے جبکہ لائبریریاں، کتاب گھر وغیرہ سنسان نظر آتے ہیں، جوکہ ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل میں تاریخ، نظریات اور اخلاقیات کی کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ مضمون بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہم سب نے اپنے اردگرد دیکھا ہے کہ کیوں پاکستان میں لوگ کتابوں پر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کھانا اکثر ہماری روزمرہ کی سب سے پہلی ضرورت ہے لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم بحیثیت قوم پڑھنے اور سیکھنے پر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں؟ ہم بحیثیت قوم علم اور خود کو بہتر بنانے کے بجائے تفریحی سرگرمیوں میں زیادہ وقت کیوں لگاتے ہیں؟ ہمیں تفریح اور سوشل میڈیا کو پڑھنے اور تنقیدی سوچ جیسے فکری کاموں پر ترجیح دینے کی کیا وجہ ہے؟
ہمارا کلچر تعلیم کی قدر کرنے کے بجائے کھانے اور تفریح جیسی چیزوں کی طرف کیوں منتقل ہوا اور مزید ہوتا جارہا ہے؟ ہمیں کتاب پڑھنے یا کچھ نیا سیکھنے کے بجائے ٹی وی شو دیکھنے میں گھنٹوں وقت گزارنا کیوں آسان لگتا ہے؟ کیا ہمارے معاشی چیلنجوں نے ہمیں تعلیم اور سیکھنے میں طویل مدتی سرمایہ کاری پر بقا اور خوشی کو ترجیح دینے پر مجبور کیا ہے؟ ہمارے ملک میں اتنے کم لوگ کیوں پڑھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، جب کہ کھانا پینا اور تفریح ہماری روزمرہ کی زندگی پر حاوی ہے؟ تعلیم اور فکری نشوونما پر نئے سرے سے توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ہم بحیثیت قوم اور کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارا تیز رفتار جدید طرز زندگی نوجوانوں میں پڑھنے کی عادات میں کمی کا باعث کیسے بنتا ہے؟ کیا ہم سکون اور تفریح کو مسلسل ترجیح دے کر فکری ترقی کی اہمیت کو کھو رہے ہیں؟
کھانا پاکستان میں ایک اہم ثقافتی اور سماجی قدر رکھتا ہے۔ فیملی ڈنر سے لے کر اسٹریٹ فوڈ کلچر تک، کھانا اکثر جشن، مہمان نوازی اور روایت سے جڑا ہوا ہے۔ معروف ماہر عمرانیات اکبر ایس احمد بتاتے ہیں کہ روایتی پاکستانی معاشرے میں کھانے پینے کی چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح تقریباً 60 فیصد ہے۔ پاکستان کے معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں تعلیم بحران کا شکار ہے، کیونکہ ہم نے روٹ لرننگ کو تنقیدی سوچ پر حاوی ہونے دیا ہے۔ طلبا حقائق کو سمجھے بغیر ہی یاد کرلیتے ہیں اور اس سے پڑھنے اور سیکھنے کی محبت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔
روٹ لرننگ پر انحصار کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے طلبا کےلیے پڑھنا ایک خوشگوار تجربہ نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسکول یا کالج کے باہر، وہ کسی ایسی چیز میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو فوری طور پر اطمینان بخشتی ہے، جیسے کھانا یا تفریح۔ لیکن ہم اس مقام تک کیسے پہنچے؟
کھانا فوری لذت فراہم کرتا ہے، اس کے برعکس فکری حصول، جیسے پڑھنا یا پیچیدہ چیزوں پر غور و فکر کرنا، وقت اور صبر طلب کام ہیں۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر فیصل باری کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستان کے سماجی و اقتصادی مسائل بھی ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے جدوجہد کرتے ہیں، تو وہ فوری ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب آپ فکرمند ہوں کہ آپ کا اگلا کھانا کہاں سے آرہا ہے تو تعلیم اور فکری نشوونما پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
لہٰذا، یہ صرف ترجیح کا معاملہ نہیں، بلکہ رسائی کا بھی ہے۔ کتابیں، لائبریریاں، اور معیاری تعلیم پاکستان میں بہت سے لوگوں کےلیے آسائشیں ہیں۔ ڈیجیٹل تقسیم کے ساتھ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، فکری پرورش کے مقابلے میں کھانا آرام کی زیادہ قابل رسائی شکل بن جاتا ہے۔
لیکن اس میں معاشیات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں، تفریح اور کھانا ہماری اسکرینوں پر حاوی ہے۔ ہر دوسری انسٹاگرام پوسٹ کھانے کے تازہ ترین رجحان کے بارے میں ہے، اور باہر کھانا شہریوں کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بن گیا ہے۔ اس دوران، کتابوں کی دکانیں کم ہوتی جارہی ہیں۔ معروف اسکالر ڈاکٹر نعمان الحق کہتے ہیں کہ کس طرح فکری مصروفیات کی طرف یہ تبدیلی سوچے سمجھے معاشرے کی ترقی کےلیے نقصان دہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فکری ثقافت ختم ہورہی ہے کیونکہ ہم اب تنقیدی سوچ یا تجسس کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے ہیں۔ نہ پڑھنے والی قوم سوال کرنے اور اختراع کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔
یہ ایک درست تشویش ہے۔ جب لوگ پڑھنے کے بجائے کھانے یا تفریح کو ترجیح دیتے ہیں، تو ہم تنقیدی سوچ میں مشغول ہونے کی اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں، جو ترقی کےلیے ضروری ہے۔ ڈاکٹر ہودبھائی اور ڈاکٹر حق دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سیکھنے کی ثقافت کے بغیر، ہمیں سائنس، ادب اور یہاں تک کہ سیاست جیسے شعبوں میں جمود کا خطرہ ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کھانے سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دیں۔ یہ ہماری شناخت اور ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ سوال توازن کا ہے۔ معروف پاکستانی شاعر فیض احمد فیض نے خوبصورتی سے اپنے کام میں فکری اور جذباتی دونوں طرح کی پرورش کی ضرورت کا اظہار کیا اور کہا کہ
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا
فیض کے الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جہاں ہم غذا اور صحبت کی طرح زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہیں ہمیں اپنی روح کو علم اور یادداشت سے بھی کھلانا چاہیے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہمیں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، کتابیں نہ صرف علم بلکہ امید، خیالات اور حل پیش کرسکتی ہیں۔
پاکستان میں کھانے کی ایک بھرپور ثقافت ہے، اور یہ بات قابل فخر ہے۔ لیکن آئیے فکری ترقی کی اہمیت کو نہ بھولیں۔ چائے اور سموسوں سے لطف اندوز ہوں، لیکن فارغ اوقات میں ایک کتاب کو بھی اٹھائیں اور اپنے دماغ کو کھلائیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا کھانے کےلیے ہماری محبت کو علم کی بھوک کے ساتھ متوازن کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔