[ad_1]
امریکا میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں حکمراں جماعت ڈیموکریٹ کی کملا ہیرس اور اپوزیشن جماعت ریپبلکن کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے اور دونوں اپنی فتح کے لیے مسلم ووٹرز کی جانب دیکھ رہے ہیں جو فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں عرب نژاد امریکی ووٹرز کی تعداد کہیں زیادہ ہیں جو عرصے سے کبھی ڈیموکریٹ تو کبھی ریپبلکن کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔
اس صدارتی الیکشن میں مسلم ووٹرز کو فلسطین، لبنان اور بالخصوص غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر جہاں مسلم ووٹرز کو متحد کردیا ہے وہیں ڈیموکریٹ یا ریپبلکن میں کسی ایک کے انتخاب کی حکمت عملی پر منقسم نظر آتے ہیں۔
اکثر مسلم ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں کیوں کہ کسی بھی امیدوار نے کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی غزہ سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے۔
کئی مسلم جماعتوں اور گروپس نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر پولنگ ڈے تک کسی بھی امیدوار نے غزہ پر راست اقدام نہیں اُٹھایا تو مسلم ووٹرز پولنگ اسٹیشن جانے کا تکلف جھیلنے کے بجائے گھر پر رہنا پسند کریں گے۔
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے عرب نژاد امریکی لیلیٰ ایلابڈ کہتی ہیں کہ وہ اور دیگر مسلم ووٹرز غزہ اور لبنان کے اجتماعی جنازوں کے ساتھ ہیں۔ ہم غمگین ہیں۔ ہم مایوس ہیں۔ ہم ناراض ہیں۔ ہم دل شکستہ ہیں۔ ہمیں دھوکے بازی کا احساس ہو رہا ہے۔
ایک اور تارک وطن ووٹر نے بتایا کہ میں نہ تو نائب صدر کملا ہیرس اور نہ ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دوں گئی کیوں دونوں نے کوئی ایسی پالیسی نہیں اپنائی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہو کہ غزہ پر بمباری بند ہونے والی ہے۔
لبنانی امریکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل علیسہ حکیم نے الجزیرہ کو بتایا کہ پہلے بائیڈن کو ووٹ دیا تھا جو میرے خیال میں ٹرمپ سے بہتر ہوں گے۔ لیکن غزہ میں جسے بہت سے ماہرین نسل کشی قرار دینے رہے ہیں، پر جوبائیڈن کے اقدامات سے خوش نہیں۔
22 سالہ طالبہ نے ٹرمپ کے مقابلے میں کملا ہیرس کے انتخاب کے لیے “دو برائیوں میں سے کم برائی” کے چناؤ کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا ووٹ بیچنے سے زیادہ اپنے آپ کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈیئربورن کی آبادی ایک لاکھ 10 ہزار ہے جسے امریکا میں عربوں کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ ب تک ووٹرز کملا ہیرس یا ٹرمپ میں سے کسی ایک کے انتخاب کا فیصلہ نہیں کرپائے ہیں۔
الجزیرہ نے شہر کے مشرقی حصے میں بہت زیادہ عرب علاقوں میں درجنوں رہائشی محلوں کا سروے کیا جہاں انتخابی امیدواروں سے زیادہ فلسطینی اور لبنانی لہرا رہے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں جو بائیڈن نے ڈیئربورن میں بنیادی طور پر عرب علاقوں میں 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جس سے انہیں مشی گن میں فتح حاصل ہونے میں مدد ملی۔ تاہم اس بار کملا ہیرس کو مشکلات کا سامنا ہے۔
مسلم ووٹرز کے اس تذبذب کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پولنگ ڈے پر عرب نژاد امریکی متحرک نہیں ہوئے تو کملا ہیرس جو ممکنہ فاتح امیدوار ہیں حریف ٹرمپ سے شکست کھا سکتی ہیں۔
[ad_2]
Source link