[ad_1]
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کے عہدے کے لیے اپنی انتخابی مہم کی خاتون منیجر 67 سالہ سوزی وائلز کا نام فائنل کرلیا۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق 67 سالہ سوزی وائلز وائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف بننے کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہوں گی۔
سوزی وائلز نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بہت مربوط، منظم اور شاندار طریقے سے چلایا۔ جس نے ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
خیال رہے کہ چیف آف اسٹاف کی ذمہ داری وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے کاموں کو منظم انداز سے کروانا ہوتا ہے جس میں امریکی صدر کی مصروفیات کا شیڈول طے کرنا اور دیگر حکومتی اور انتظامی اداروں سے رابطہ کروانا شامل ہے۔
اس لیے وائٹ ہاؤس چیف آف اسٹاف کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ عہدہ وائٹ ہاؤس میں سب سے سینیئر غیرمنتخب عہدہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سوزی وائلز کو آئس میڈن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سوزن نے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی فتوحات میں سے ایک حاصل کرنے میں میری مدد کی۔ وہ ہوشیار، ذہین اور عالمی سطح پر قابلِ تعریف اور قابل احترام ہیں۔
سوزی وائلز کو 1980 میں اپنے سیاسی زندگی کے آغاز میں ہی رونالڈ ریگن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا اور پھر وہ منزل بہ منزل ترقی کرتی گئیں۔
سوزی نے 2010 میں صرف 7 ماہ کی انتخابی مہم کے ذریعے بہت کم سیاسی تجربہ رکھنے والے اُس وقت کے بزنس مین رک اسکاٹ کو فلوریڈا کا گورنر بنوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
رک اسٹاک 2011 سے 2019 تک فلوریڈا کے گورنر کی ذمہ داری نبھاتے رہے اور اس کے بعد سے تاحال فلوریڈا کے سینیٹر ہیں۔
سوزی وائلز کی 2015 کے ریپبلکن صدارتی پرائمری کے دوران ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تھی اور فلوریڈا میں ان کی انتخابی مہم کی شریک چیئر بن گئیں۔
سوزی وائلز کے بہترین انتظام و انصرام کے باعث 2016 میں انتخابی مہم کامیاب رہی اور ٹرمپ نے فلوریڈا میں ہلیری کلنٹن کو شکست دی۔
سوزی وائلز آنجہانی امریکی فٹ بال کھلاڑی اور براڈکاسٹر پیٹ سمرال کی بیٹی ہیں۔ وہ خود کو “روایتی” سیاسی پس منظر سے آنے والی بتاتی ہیں۔
سوزی وائلز پس منظر میں رہ کر سیاسی منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام پر توجہ رکھتی ہیں۔ ریگن انتظامیہ سے ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم کے منتظم کی حیثیت سے شہرت پائی۔
[ad_2]
Source link