12

اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف مسلسل جارحیت

جب تک فلسطینی قیادت کا اتحاد نہیں ہو گا‘ کوئی دوسرا ملک کچھ نہیں کر سکے گا۔ فوٹو:فائل

جب تک فلسطینی قیادت کا اتحاد نہیں ہو گا‘ کوئی دوسرا ملک کچھ نہیں کر سکے گا۔ فوٹو:فائل

اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ہلاکت خیز کارروائیاں جاری ہیں، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز فلسطینی پناہ گزیں کیمپوں اور اسپتال پر بمباری کی گئی، اس بمباری کے نتیجے میں55 فلسطینی شہید ہو گئے۔

ایک عالمی خبر رساں ادارے کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں نوصیرات اور المغازی مہاجر کیمپوں پر بمباری سے 35 فلسطینی شہید ہوئے جب کہ کویتی اسپتال پر بمباری سے 20 افراد شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ادھر عالمی میڈیا نے غزہ میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNRWA کے ڈائریکٹر تھامس وائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے ایک امدادی قافلے پر بھی فائرنگ کی حالانکہ اس روٹ پر جانے کی اجازت خود اسرائیلی فوج نے دی تھی، اس کے باوجود اس قافلے پر حملہ کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالات کس قدر خراب ہیں۔

ادھر یہ خبر بھی آئی ہے کہ اٹلی نے متنازع یہودی بستیوں کے میئرکی بطور سفیر نامزدگی قبول کرنے سے انکار کردیا، غیرملکی میڈیا کے مطابق اٹلی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے بینی کیشریل کی بطور سفیر نامزدگی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بینی کیشریل یہودی بستی کے 31 سال تک میئر رہے ہیں، روم میں سفیر کے طور پر ان کی تعیناتی مناسب نہیں۔

اٹلی حکومت کے اس فیصلے سے مغربی یورپ کی پالیسی میں بھی تبدیلی کا اشارہ مل رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ یورپی ممالک کی حکومتیں بھی اسرائیلی جارحیت کی مسلسل حمایت کرنے سے پریشان ہیں۔

اسرائیل کی حکومت نے غزہ میں یرغمال بنائے گئے اپنے تین شہریوں کو ہلاک کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے تین اسرائیلی قیدیوں کے قتل کی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے کو روکا جا سکتا تھا لیکن اس میں ملو ث فوجیوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی کیونکہ فوجیوں کے اس اقدام میں کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی۔

یہ بھی ایک عجیب فیصلہ لگتا ہے کہ اگر کوئی اسرائیلی فلسطینی فورسز کے ہاتھوں غلطی سے مارا جائے تو بھی اسے ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے جب کہ اسرائیلی فوجی اپنے ہی ملک کے اسرائیلی یا کسی غیرملک کے یہودی شہری کو قتل کر دے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی عوام تاحال تباہی اور قتل وغارت کا سامنا کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی فورسز نے اپنا دائرہ کار بڑھا دیا ہے اور دیگر فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔ 7 اکتوبر سے اسرائیلی فورسز کے زمینی اور فضائی حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شہید ہونے والوں میں کئی ہزار معصوم بچے اور خواتین ہیں۔

فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیل کی حالیہ بمباری سے پہلے بھی جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی روز میں 46 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس جنگ کی وجہ سے تقریباً تمام فلسطینیوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں‘ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے تو کوئی روز گار ہی نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی سے متعلق قرار داد پر ووٹنگ کئی بار مرتبہ ملتوی کی گئی کیونکہ قرارداد پر ووٹنگ امریکا کی جانب سے اسرائیل کے حق میں قرارداد کو ویٹو کرنے کے خدشے کے پیش نظر ملتوی کی جاتی رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی حالت زار کیا ہے۔ ان تک امداد پہنچانا بھی انتہائی مشکل کام بن گیا ہے کیونکہ اقوام متحدہ بھی بے بس ہو جاتی ہے۔

امریکا اور یورپی یونین مسلسل اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں‘ امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال کرکے اسرائیل کا حوصلہ بلند رکھے ہوئے ہے۔ جن ممالک نے عارضی جنگ بندی کرائی تھی‘ وہ بھی اب بے بس نظر آ رہے ہیں۔

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک بڑے منصوبے پر عمل کر رہا ہے، اس کا پہلا ہدف حماس کا مکمل خاتمہ کرنا ہے، پھر غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی بستیاں بسانا ہے۔ ادھر امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی بھی یہی لگتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے تاکہ بعد میں مستقل جنگ بندی کرا دی جائے ۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جب عارضی جنگ کا معاہدہ طے پایا تھا تو سب کو معلوم تھا کہ یہ چند روزہ معاہدہ ہے، جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی‘ عارضی جنگ بندی کی مدت کے خاتمے کے بعد کیا ہونا ہے اس کا کوئی میکنزم تیار نہیں کیا گیا تھا‘ جو اب تک بھی تیار نہیں ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع واضح کر چکے تھے کہ یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے، لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اس کی شدت پہلے سے بھی زیادہ ہو گی۔اسرائیلی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا تھا کہ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہ سکتی ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں اور اس سارے کھیل میں عام فلسطینی مارے جا رہے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا نقصان ہوا ہے کیونکہ فلسطینیوں کا امیر طبقہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں اپنی پناہ گاہیں رکھتا ہے‘ امیر فلسطینیوں کے ان ممالک میں اپنے گھر ہیں، کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت عمان میں رہائش پذیر ہیںاور ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

مسائل عام فلسطینی شہریوں کے لیے ہیں، حالیہ جنگ میں بھی وہ بے گھر ہو کر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میںڈرے سہمے رہنے پر مجبور ہیں۔ زمینی حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو فلسطین کے سب سے پہلے اسٹیک ہولڈر عام فلسطینی ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فلسطینی عوام کسی بھی قسم کی جنگ کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے چھپنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔

امیر مسلم ممالک بھی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں پناہ گزین نہ آئیں۔ فلسطینیوں کے پاس باقاعدہ فوج نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس فضائیہ موجود ہے۔ ایسی صورت میں کسی دشمن کے ساتھ باقاعدہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ گوریلا کارروائیاں کرنا ایک الگ بحث ہے جب کہ باقاعدہ جنگ ایک الگ چیز ہے۔ فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے اندر نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت اور متفقہ مؤقف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

فلسطینی قیادت کو ان معاملات پر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے کہ ان کی نظریاتی تقسیم عام فلسطینیوں پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے‘ اس کا اندازہ شاید انھیں نہیں ہو پا رہا، فلسطینی قیادت کو اپنے نظریات اور مفادات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کی تحریک صحیح معنوں میں قومی تحریک بن سکے۔مذہبی تقسیم نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک آزاد فلسطین ریاست قائم ہو چکی ہوتی۔

غزہ تباہ و برباد ہوچکا، دیگر فلسطینی علاقے بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں کے فلسطینی ترکِ وطن پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب جنگ بند ہو گی اور امن قائم ہو گا، تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں میں واپس ہی نہ آئیں۔ یوں فلسطینیوں کی آبادی اپنے وطن میں مزید کم ہو جائے گی۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر پانچ مستقل ممبران کا غلبہ ہے اور یہ اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک پانچ مستقل ممبران اس پر تیار نہ ہوں۔ اسرائیل کے خلاف ایکشن کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ تیار نہیں ہیں، ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک ویٹو کر دیتا ہے تو اسرائیل کے خلاف قرارداد بے کار ہو جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پاس ایسا اختیار نہیں ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے احکامات پر زبردستی عمل درآمد کروا سکے۔

فلسطین کا تنازع کیسے حل ہو گا‘ اس کے بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہر جنگ کے بعد فلسطینیوں کی تعداد اپنے ہی علاقوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی مسلم ممالک تنازع فلسطین کے حل کے لیے صرف ایک بات کرتے ہیں، یعنی اسرائیل کا خاتمہ ہو اور پورا فلسطین آزاد ہو جب کہ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی اسلامی ممالک فلسطین کے تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کے حامی ہیں۔

یعنی اس خطے میں اسرائیل اور فلسطین دو الگ الگ اور آزاد ریاستیں ہوں‘ جس نقطہ نظر کی حامی حماس ہے ‘ اس میں اسرائیلی ریاست کے وجود کی گنجائش نہیں ہے۔ان متحارب نظریات کے ہوتے ہوئے تنازع فلسطین کا حل کیسے ممکن ہو گا، فی الحال اس کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ فلسطینی قیادت کو کسی ایک نقطے پر پہنچ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ جب تک فلسطینی قیادت کا اتحاد نہیں ہو گا‘ کوئی دوسرا ملک کچھ نہیں کر سکے گا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں