تقریبا سو برس سے فلسطین کا علاقہ ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہا اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت رہی جب کہ یہودی بے وطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور انھیں کہیں چین نہیں مل رہا تھا۔
عیسائی ریاستوں میں ان کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا جس کی اہم ترین وجہ، ان کی اپنی عادات تھیں، جس کی بناء پر یہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے جس کا تذکرہ تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں آسٹریلیا کے یہودی تھیوڈ ورہرزل نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تحریک چلائی۔
بیسل سوئٹزر لینڈ میں 1897 میں پہلی صیہونی کانگریس کا انعقاد ہوا۔ اس کانگریس کے منشورکو بیسل پروگرام کا نام دیا گیا، جس کے مطابق اعلان کیا گیا کہ صیہونیت کا مقصد یہودیوں کے لیے فلسطین میں قومی اور سیاسی وطن کی تشکیل ہے اور اس طرح پہلی بار یورپی یہودیوں کی جانب سے فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا، اور اسی دوران چند یہودی سلطان عبدالحمید سے ملے اور درخواست کی کہ بڑی سے بڑی قیمت پر انھیں فلسطین میں زمین کا ایک ٹکڑا دیا جائے انتہائی سمجھدار، زیرک اور عالم اسلام کے اس عظیم خیر خواہ سپوت نے ان کے پوشیدہ عزائم بھانپ لیے اور سختی سے انکار کردیا۔
سلطان عبدالحمید نے 1902میں ایک خط ڈاکٹر ہرزل کو لکھا کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی جدوجہد ترک کردے صرف سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر ہی یہودیوں کے لیے فلسطین کا حصول ممکن ہے۔ یہودی عالمی پریس پر چھائے ہوئے تھے، انھوں نے سلطان عبدالحمید کے خلاف زبردست مہم چلائی اور ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر سازشیں کیں اور یوں سلطان کو اپنے جانشین سلطان مراد کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔
بیسویں صدی کے اوائل تک ہرزل کی یہ مکروہ تحریک یورپی اور امریکی یہودیوں کو پوری طرح اپنی کشش میں گھیر چکی تھی ان کے اس ناپاک عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی مرکزیت اور ملت کا تصور تھا۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہودیوں نے صیہونی تحریک سے اس اتحاد کو ختم کرنے کے لیے عربوں اور ترکوں میں اختلافات کو ہوا دے دی اور اس شیطانی منصوبے کو ہوا دینے کے لیے انھوں نے عربوں میں قومیت کا تصور ابھارا، اور ترکوں سے آزادی حاصل کرنے پر زور دیا۔ انگریز ترکوں پر ضرب کاری لگانے کے لیے موقع کی تلاش میں تھے اور یہ موقع پہلی جنگ عظیم کی شکل میں سامنے آیا۔
پہلی جنگ عظیم کے آغاز ہی میں برطانوی ہائی کمشنر عربوں سے خط وکتابت کر کے شریف حسین کی قیادت میں عرب خلافت کی تشکیل میں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروا رہی تھی اور اس طویل خط وکتابت سے یہ طے پایا کہ امداد کی صورت میں وہ اس تمام علاقے کو آزاد کروایں گے جہاں عرب آباد ہیں۔
اکتوبر1914 میں برطانوی وزیر لارڈ کچز نے شریف حسین کو یقین دلایا کہ اگر عرب ترکوں اور جرمنوں کے خلاف اعلان جنگ کریں تو برطانیہ عربوں کو آزاد ہونے میں مدد دے گا اور اس طرح عربوں کی مدد سے اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ میں ترکوں کو جابجا شکست دی اور ترکوں کو عرب دنیا سے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ کے آغاز میں برطانوی حکومت نے عربوں کو سبز باغ دکھائے جو ہمیشہ سے ان یہود ونصاریٰ کا منافقانہ وطیرہ رہا ہے کہ ہمیں مسلمانوں سے کوئی پرخاش نہیں، ہمارے اپنے بادشاہ کی رعایا میں کروڑوں مسلمان شامل ہیں اور یہ بات ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ ہم اپنی مسلمان رعایا کے مذہب اور ان کے مقامات مقدسہ کے خلاف کوئی صلیبی جنگ لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے برعکس اگر کبھی ضرورت پڑی اور باہر سے کسی نے حملہ کیا تو ہم ان بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں پوری طاقت سے ان مقامات مقدسہ اور اپنی مسلمان رعایا کی حفاظت کریں گے اور انھیں صحیح سلامت اور محفوظ رکھیں گے۔
9 نومبر1914 کو گلڈ ہال کی دعوت طعام میں برطانوی وزیر اعظم مسڑ ایسکوئتھ نے اپنی تقریر میں ان یقین دہانیوں کی تصدیق و توثیق کی جو ان اتحادیوں نے عربوں کے ساتھ کی۔ اس وقت کے جنرل ایلن بی نے7نومبر1918 کو ایک سرکاری اعلان شایع کیا کہ ترکوں اور جرمنوں سے جنگ اب اختتام پر ہے اب عربوں کو مکمل آزادی ہوگی کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے اوپر حکومت کریں مگر ساتھ ہی ساتھ جب بیت المقدس میں جنرل ایلن بی کی فوجیں داخل ہورہی تھیں تو اس منافق کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ آج صلیبی جنگوں کا بدلہ چکا دیاگیا۔
ہرزل نے 1911میں وفات پائی اور یہ شیطانی صیہونی تحریک ڈاکٹر ویزمین کے پاس چلی گئی جو کہ ایک سائنسدان تھا اور اس کے تیارکردہ آتشگیر مادے نے جنگ میں اتحادیوں کی بہت مدد کی جس کے بدلے میں اس نے انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کریں۔
برطانیہ کے زہریلے خیالات یہ تھے کہ ایک طرف نہر سوئز پر قبضہ کیا جائے تو دوسری طرف بحیرہ روم پر بھی اپنا تسلط قائم کیا جائے اور اس صیہونی تحریک کے کرتا دھرتا ویزمین نے اپنے ساتھیوں یعنی برطانوی حکمرانوں کو یقین دلایا کہ یہ سب مقاصد یہودیوں کے قومی وطن کے حصول میں ہی موجود ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے ساتھ عرب ممالک برطانیہ اور فرانس کی جھولی میں جاگرے۔
عربوں کے موقف میں صیہونیت سے ہمدردی تھی پر وہ یہودی ریاست کے قیام کو ناممکن قرار دیتے، کیونکہ دوسری قوموں کے شہری اور سیاسی حقوق متاثر ہوئے بغیر اس کا قائم ہونا ممکن نہیں، انھوں نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ فلسطین پر اگرکسی کا حق ہے تو وہ عربوںکا ہے یہودیوں کو مذہبی گروہ تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن انھیں قوم ماننا ممکن نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کی آڑ میں انگلستان اور فرانس پہلے ہی دنیائے عرب کی تقسیم کا معاہدہ کرچکے تھے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولﷺ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملکوں و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری
یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طرح کی دوستی کا دکھاوا کرتے ہوئے اس تقسیم کے ایجنڈے پرکاربند تھے، ہیں اور رہیں گے۔ جنگ کے بعد امن قائم رکھنے کے لیے بین الاقوامی ادارے کے قیام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مجلس اقوام قائم کی گئی جس میں شروع سے ہی چند بڑی طاقتوں کو اختیار مل گیا اور ان طاقتوں کی من مانی کی وجہ سے خطے میں حق و انصاف، امن وامان بری طرح پامال ہوتا رہا۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے مصر، عراق، اردن اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور فرانس نے لبنان اور شام پر۔